top of page

Search Results

8 items found for ""

  • ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ

    ناقل: خیام خالد ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﭽﮧ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺑﭽﮧ ﮨﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ مثلاً: ﺳﺎﻧﭗ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﻟﻮ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﻠﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ حالانکہ ﺍﺭﺩﻭ میں ﺍﻥ ﮐﮯ لئے ﺟﺪﺍ ﺟﺪﺍ ﻟﻔﻆ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺜﻼً: ﺑﮑﺮﯼ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔ ﻣﯿﻤﻨﺎ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔۔۔ ﺑﺮّﮦ ﮨﺎﺗﮭﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔ ﭘﺎﭨﮭﺎ ﺍﻟﻮّ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔ ﭘﭩﮭﺎ ﺑﻠﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔۔ ﺑﻠﻮﻧﮕﮍﮦ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔ بچھیرا ﺑﮭﯿﻨﺲ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔ کٹڑا ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔ چوزہ ﮨﺮﻥ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔۔ ہرنوٹا ﺳﺎﻧﭗ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔ سنپولیا ﺳﻮﺭ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔۔ گھٹیا ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻌﺾ ﺟﺎﻧﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮﺟﺎﻧﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﮯ لئے ﺧﺎﺹ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻮ ﺍﺳﻢ ﺟﻤﻊ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺜﻼً: ﻃﻠﺒﺎ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ پرﻧﺪﻭﮞ ﮐﺎ غول ﺑﮭﯿﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﻠﮧ ﺑﮑﺮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﯾﻮﮌ ﮔﻮﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﻮﻧﺎ ﻣﮑﮭﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﻠﮍ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﮭرﻣﭧ ﯾﺎ ﺟﮭﻮﻣﮍ ﺍٓﺩﻣﯿﻮں ﮐﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﮍﺍ ﮨﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﺍﺭ ﮐﺒﻮﺗﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﮑﮍﯼ ﺑﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻨﮕﻞ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉ ﺍﻧﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﻨﺞ ﺑﺪﻣﻌﺎﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﻮﻟﯽ ﺳﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﮧ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﮐﺎ ﮔﭽﮭﺎ ﮐﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﮩﻞ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﺎ ﻟﭽﮭﺎ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﺘﮭﺎ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﭘﺮّﺍ ﺭﻭﭨﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮭﭙﯽ ﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﭩﮭﺎ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ کی ﮔﮉﯼ ﺧﻄﻮﮞ ﮐﺎ ﻃﻮﻣﺎﺭ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﮔُﭽﮭﺎ ﭘﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﮬﻮﻟﯽ اردو میں ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯽآواز ﮐﮯ لئے ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ ﻣﺜﻼ: ﺷﯿﺮ ﺩﮬﺎڑﺗﺎ ﮨﮯ ﮨﺎﺗﮭﯽ ﭼﻨﮕﮭﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﮨﻨﮩﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﮨﯿﭽﻮﮞ ﮨﯿﭽﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﻮﻧﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﯽ ﻣﯿﺎﺅﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﺭﺍﻧﺒﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﮉ ﮈﮐﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮑﺮﯼ ﻣﻤﯿﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﻞ ﮐﻮﮐﺘﯽ ﮨﮯ ﭼﮍﯾﺎ ﭼﻮﮞ ﭼﻮﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺍ ﮐﺎﺋﯿﮟ ﮐﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﮨﮯ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﻏﭩﺮ ﻏﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮑﮭﯽ ﺑﮭﻨﺒﮭﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﺮﻏﯽ ککڑاتی ﮨﮯ ﺍﻟﻮ ﮨﻮﮐﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﻮﺭ ﭼﻨﮕﮭﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﻃﻮﻃﺎ رﭦ ﻟﮕﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﻏﺎ ﮐﮑﮍﻭﮞ کوں ﮐﮑﮍﻭﮞ ﮐﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ/بانگ دیتا ہے ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭼہچہاتے ﮨﯿﮟ ﺍﻭﻧﭧ ﺑﻐﺒﻐﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﭘﮭﻮﻧﮑﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﻠﮩﺮﯼ ﭼﭧ ﭼﭩﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﻨﮉﮎ ٹرّﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮭﯿﻨﮕﺮ ﺟﮭﻨﮕﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻨﺪر گھﮕﮭﯿﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺌﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﮯ لئے ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ ﻣﺜﻼ: ﺑﺎﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﺮﺝ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﮐﮍﮎ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﺳﻨﺴﻨﺎﮨﭧ ﺗﻮﭖ کی ﺩﻧﺎﺩﻥ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﮐﯽ ﮔﭧ ﮔﭧ ﮔﮭﻮﮌﮮ کی ﭨﺎﭖ ﺭﻭپیوں کی ﮐﮭﻨﮏ ﺭﯾﻞ ﮐﯽ گھﮍ ﮔﮭﮍ ﮔﻮﯾﻮﮞ کی ﺗﺎﺗﺎ ﺭﯼ ﺭﯼ ﻃﺒﻠﮯ کی ﺗﮭﺎﭖ ﻃﻨﺒﻮﺭﮮ ﮐﯽ ﺁﺱ گھڑی کی ٹک ٹک ﭼﮭﮑﮍﮮ ﮐﯽ ﭼﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﮑﯽ کی ﮔﮭُﻤﺮ ﺍﻥ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮐﮯ لئے ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺠﯿﮯ: ﻣﻮﺗﯽ ﮐﯽ آﺏ ﮐﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﺩﻣﮏ ﮨﯿﺮے ﮐﯽ ﮈﻟﮏ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﮐﯽ ﭼﻤﮏ ﮔﮭﻨﮕﮭﺮﻭ ﮐﯽ ﭼﮭُﻦ ﭼﮭُﻦ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﺎ ﺗﮍﺍﻗﺎ ﺑﻮ ﮐﯽ ﺑﮭﺒﮏ ﻋﻄﺮ ﮐﯽ ﻟﭙﭧ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﻣﮩﮏ ﻣﺴﮑﻦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺟﯿﺴﮯ: ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﺤﻞ ﺑﯿﮕﻤﻮﮞ کا ﺣﺮﻡ ﺭﺍﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ اﻧﻮﺍﺱ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮎ ﺭﺷﯽ ﮐﺎ ﺁﺷﺮﻡ ﺻﻮﻓﯽ ﮐﺎ ﺣﺠﺮﮦ ﻓﻘﯿﮧ ﮐﺎ ﺗﮑﯿﮧ ﯾﺎ ﮐﭩﯿﺎ ﺑﮭﻠﮯ ﻣﺎﻧﺲ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﻏﺮﯾﺐ کا ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﺍ ﺑﮭﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﮭﺘﺎ ﻟﻮﻣﮍﯼ کی ﺑﮭﭧ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﻧﺴلہ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﺎ ﺑﻞ ﺳﺎﻧﭗ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﺒﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﻭﻧﯽ ﻣﻮﯾﺸﯽ ﮐﺎ ﮐﮭﮍﮎ،۔۔۔۔ اردو لکھتے ہوئے درست الفاظ کا استعمال تحریر کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

  • آج کا اردو ادب

    آج کا اردو ادب بقلم خیام خالد یوں تو ہر فن میں وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اونچ نیچ ہے، لیکن اردو ادب کی بات اور اس کا مزا کچھ الگ سا ہے۔۔۔ فنوں کے فراز و نشیب کا دریا الٹا بہتا ہے! اب دیکھیے عام سی بات ہے، بچہ تو شروع میں بچہ ہی ہوتا ہے، گنگ زبان اور ناتواں سی پیاری بولی، بے جان پاؤں ہاتھ اور کمزور بدن، کم سن دماغ اور کوتاہ ذہن۔ وہ "کیں کیں" کے علاوہ کچھ جانتا ہی نہیں۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ سمجھ بوجھ آتی جاتی ہے، ذہن زیادہ کام کرنا شروع کرتا ہے، عقل کھلنے لگتی ہے، دماغ تیز ہونے لگتا ہے، رفتہ رفتہ دانت نکل آتے ہیں، لٹپٹاتی زباں اب چلنے دوڑنے لگتی ہے، بے جان جسم میں پھرتی آتی ہے، کمزور بدن میں چستی آتی ہے، ہلتے ڈلتے ہاتھ زور پکڑنے لگ جاتے ہیں، ڈگ مگ کرنے والے قدم اب جمنے لگتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے اس کی نشو نما ہوتی ہے۔ پھر ایک دور آتا ہے، جب وقت پھر واپس لوٹ کر واپس آتا، وہی کمزور نگاہیں، کم قوت، کوتاہ عقل، کمزور بدن، اب تو پاؤں بھی تین ہو گئے، اور ہاتھ کی تو گنتی نہ رہی۔۔۔ لیکن فنوں کی کہانی عجب ہے، اس کی سیما اور اس کا ریکھا "مربع گول" ہے! پہلے کبھی ہوتے تھے لوگ پرانے عقل والے، یہاں ہیں زبان والے تو وہاں ہیں قلم والے۔۔۔ انہوں نے فن کو اڑان بھرنے کے لیے پر دیا، پھر پھرپھراتی پنکھیوں میں جان ڈالی، پرواز کے دوران سر اور پیر کے جگہوں کی نشان دہی کی اور پھر اونچائیوں میں بہنا سکھایا۔ ظاہر ہے یہ وقت مشکل تھا، عجوبے چیلینجز (challenges) تھے، نمونے کی کٹھنائی تھی، مات دینے والی گھڑیاں، انوکھے اور نرالے میدان تھے۔ اس دور میں اینٹ کو پھول سے نہیں، بل کہ پتھر کو لوہے سے جواب دینے کا بول بالا تھا۔ بھلے ایسے وقت میں من میں الفاظ مشکل، ترکیبیں دشوار، رموز لا پتہ اور مضمون میں کھویا مٹھاس نہ ہوتا تو کیا ہوتا! لیکن اس دور کا سورج ڈھلتے ڈھلتے جب آج کے سایہ پر پہونچا، تو وقت نے حالات کو بدلا۔ اب بہار گلوں کی آئی چاہتی ہے، موسم پھولوں کا آچکا ہے، دور سہولت کا ہے لوگ آسانی تلاشتے ہیں، زمانہ مٹھاس کا ہے، سدا نزاکت اور نرمی کی پیاس ہے۔۔۔ الفاظ میں دلبری، تو ترکیب میں دل ربائی منظور ہے۔ آواز اور لہجہ میں لچک اور قلم و زبان میں خوب صورت جھکاؤ اور ٹھراؤ کی ضرورت ہے۔۔۔ سچ بتاؤں تو سچ بتاؤں تو اب سہولت اور آسانی ہی قلم کی روشنائی ہونی چاہیے۔ گر ادب کو کھول کھال کر دیکھا جائے، اس کے تاریخی پنوں کو الٹ پلٹ کیا جائے، اس کے چڑھتے گرتے، اوبتے ڈوبتے زمانہ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے نثر سے لے کر شعر تک، لفظ، اس کا جوڑ توڑ، میل جول، ترکیب اور استعمال سب میں مزے کی "آسانی والی جدت" پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملہ میں میر سے لے کر غالب و کلیم، پھر ان میں بے بہا (میرے نزدیک) نمایاں شورش کشمیری کہ انہوں نے اور ان جیسوں اردو ادب کے ڈور کو ایسی نزاکت سے سنبھالا کہ اس کی مہک آج بھی آتی جاتی ہے۔ جیسے کچھ شورش کا شعر: یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں کچھ یوں ہی کلیم بھی: مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتیں کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں یہ بیان حال یہ گفتگو ہے مرا نچوڑا ہوا لہو ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں کبھی پھر اقبال کی عجب کہانی دکھتی ہے جو خود میں حکمت ہوا کرتی ہے: میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو میں حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری دم زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری جب کہ اکبرآبادی کہتا ہے: سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں

  • روداد عشق (۲) خیام خالد

    دوست کی کہانی خیام کی زبانی روزیہ" اس کا پیارا سا نام تھا، پیار سے اسے روز (Rose ) بلایا کرتا تھا، بڑے انوکھے انداز سے ملاقات ہوئی، وہ بھی بڑی عجیب کہانی ہے، جیسے کوئی پارینہ قصہ۔ ان دنوں مجھے مضامین جمع کرنے کا چسکا لگا، مختلف لوگوں سے دنیا بھر میں رابطے کر رہا تھا، افریقہ، عرب، امریکہ، افغان، مصر، انڈونیشیا، فلسطین اور پھر اتفاق سے "ازبیکستان" (Uzbekistan)۔ اس کے پروفائل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا ایسا ہی کچھ لکھا ہوا تھا، میں نے اسے میسیج بھیجا اور مضمون کی ساری بات بتلادی، اس کو لکھنے کی عادت نہ تھی، اسی لیے اس سے مضمون تو نہ ملا لیکن کیا ملا، کیا کیا ملا، مت پوچھ! (ضمنی بات: شامی: میرے اک قریبی بھائی "مولانا نور عین صاحب ندوی" نے مجھےایک لطیف بات سمجھائی کہ "انسان کی فکر میں وقت کا بڑا دخل ہے، بچپن میں کھیل کھلونے کی بات ہوتی ہے اور اور گزرتے وقت کے ساتھ گڈے اور گڑیوں کی؛ یہ فطرت انسانی ہے، اس کی ضروریات وقت کے ساتھ بدلتی جاتی ہیں...) شاید میں بھی جسم میں بڑھ چکا تھا، خواہشات نے الگ موڑ لینی شروع کردی، جذبات کے رنگ بدلنے لگے، امنگوں کی چاپ اور ان ان چاپوں کے نقوش رنگنے سنورنے لگے، لگ لگاؤ کا طرز بدلنا چاہتا تھا، ذہن میں کیا اور تھا، دل میں کیا کچھ اور۔ جب دل مٹی کے کٹ پتلیوں میں لگ رہا تھا، تو اس کی انوکھی باتیں اور ان باتوں کا انداز، اس کا مزہ، اس کی آواز اور اس آواز کی مٹھاس، اس کی ادائیں اور ان اداؤوں کی خوب صورتی، ہائے رب... دل کے جڑنے میں زبان کا بھی بڑا کردار ہوا کرتا ہے کہ ان ہی الفاظ سے احساس کروٹیں بدلتا ہے اور کیسی عجب بات ہے، نہ ہماری زبان ایک، نہ بول چال ایک، نہ انداز تکلم اور نہ ہی طرز تحریر ایک؛ پھر بھی ایک لگن سی ہونے لگی، جذبات کھلنے لگے، احساس ملنے لگے اور دل جڑنے لگا۔ محبت میں دوری ہائے کیا پوچھتے ہو؟ عشق دل میں اور معشوق دور، اس تکلیف کو بھی جھیلا ہم نے اک لفظ کو سننے کی خاطر کبھی کتنے وقت نکل جاتے ہیں... اور اس دوری نے ہمارے تڑپ اور عشق میں کیسی آگ لگ لگائی کہ بیان تک نہ کرپاؤں گا۔ ہماری باتیں بڑھنے لگیں، رت رت بھر جگنا شروع ہو گیا... اس کی سہانی ادائیں، فریبی بولی، عجب نزاکتیں، دل کش نگاہیں، عجوبے پیارے پیارے سے نخرے، مدھم سی آواز، چاند سی ہنسی، دلوں کی کہانیاں، اور روحوں کے ترانے، ہائے رب! ہر چیز اک وقت گزار کر کامل بنتی ہے یا بنتی ہوتی دکھتی ہے۔ ہماری کہانی بھی زمین سے ہو کر بادلوں کو سیر کو چلنے لگی، پر نکل آئے، اڑان بھرنے لگی، احساس ملنے لگے، خوش بو پھیلنے لگی، ہیمں اک چراغ ملا اور راستہ بن گیا، لفظوں کے تار جڑنے لگے اور دل کھلنے لگا... باتوں باتوں میں راتیں کٹنے لگیں، بولیوں میں دن بِتنے لگے، کیا صبح کیا شام، کیا دن دوپہر، رات، کیا آفتاب کی تیزی اور چاند کی ٹھنڈک... دن کٹے رات بیتے کیا ہمیں بتلاؤ ہو عشق کی بولی ہم کو کیا سکھلاو ہو تھاہ نہ ہو وقت کا جب دل سے دل مل جاؤ ہو جان جائے، جائے، ذکر تو ہو جاؤ ہو (خیام خالد) جوں جوں وقت گزرنے لگا، سانسیں ایک دوسرے سے ملنے لگیں، باتیں ملنے لگیں، بے گانی، ان جانی راہیں ملنے لگیں، اور پھر ہونا کیا تھا بس... میں ٹھہرا "دبُّو"، یا آج کل کے لفظوں میں سخت لونڈا۔ کبھی کسی احساس کا اظہار ان معاملات میں مجھ سے ہو نہ سکا اور شاید ہو بھی نہ سکے۔ تھوڑا موڑا یاد پڑتا ہے کہ عجب انداز سے دن کٹ رہے تھے، جسے قرآن کا پتہ تھا اور نہ ہی نماز کی آگہی تھی وہ بھی اب تہجد گزار، سورہ یس، اور واقعہ وغیرہ کا پابند ہوچکا تھا۔ اس کے وجود نے صرف اس کا پیار نہیں دلایا، بل کہ رب سے بھی رشتہ جوڑ دیا۔ بہت نیک و پارسا تھی وہ، نمازوں کی پابند، قرآن کی آواز، اللہ کی محبت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار تھی وہ (حال ہی میں اس نے خبر دیا اس فرقت میں اس نے قرآن حفظ کرلیا ہے)۔ ایک عجوبہ بات یہ بھی تھی کہ ہم ایک دوسرے کو قرآن سنایا کرتے تھے، کبھی دل نے چاہ لیا تو باتیں کال پر بھی ہو جایا کرتی تھیں... میں تو دبو تھا ہی، کچھ آگے بھی بات اور بڑھے اور میرا دبو پن! اس نے آخر میں اک سیاست کھیلا، عشاء بعد پڑھ لکھ کر کمرہ آنے کے بعد جب سونے کی تیاری ہونے لگی تو پھر عادت کی طرح اس کے میسیجیز آنے لگے، لیکن کچھ الگ ڈھنگ کا۔ روز: مجھے کچھ کہنا ہے۔ میں: ہممم، کیا بات ہے؟ روز: (جلیبی جیسی سیدھی سادی باتوں کے بعد) میرا کسی سے تعلق ہے۔ الجھی الجھی باتیں کچھ سمجھ نہ آرہی تھیں، پھر رفتہ رفتہ اس کا نٹ کھٹ پنہ دل سے لگنے لگا۔ کبھی تو میرا تذکرہ کرتی، تو کبھی لفظوں کو الٹ پھیر دیتی، کبھی انگریزی چھوڑ کر ازبیک زبان میں اظہار کرتی۔ اس مشکل ترین زبان کے جملوں سے مجھے جو یاد رہ سکا وہ "مین سینی" (men seni) تھا۔ یعنی مجھے تم سے عشق ہے۔ اب تلک اس سے جو کچھ کہا جا سکتا تھا اس نے کہہ ڈالا۔ تھی تو وہ ایک لڑکی ہی نا، شرمیلی، حیا والی، پردہ والی اور نہ جانے کیا کیا۔ میں سمجھ گیا کہ اب گاڑی کو دھکا مجھے ہی دینا ہوگا، چلانا تو ویسے مشکل تھا نا ہہہہہ۔ باتوں کی کڑیوں کو کاٹتے ہوئے، میں نے بھی کہہ ڈالا، بنا زیادہ سوچے سمجھے، جو ہوگا دیکھا جائے گا، دیکھ لیں گے گردہ اڑا دیں گے۔ پھر ہونا کیا تھا، اس کی چاہت ہی یہی تھی، جھٹ سے ہاتھ پکڑ لیا، اور بس اب کہانی ختم۔ نیکی کر دریا میں ڈال۔ | اس کے الفت کے نغمے اب تلک کانوں میں گونجتے ہیں، اس کی چاہت کے ترانے ابھی بھی آواز دیتی ہیں، اس کے محبت کی کڑیاں اور عشق کی بیڑیاں اب تلک مجھے بندھن میں بندھ جانے کو کھوجتی ہیں۔ پر افسوس دل لگتا ہے نہ دل لگی باقی رہی ڈوب جانے کو محبت میں نہ اب بازی رہی سو دفعہ بھی ہار کر میں جیت جانو خود کو ہوں اب دکھا میں کیا نہ دوں کہ میں رہا نہ وہ رہی (خیام خالد) ہر کہانی میں اہم کردار ہوا کرتا ہے، کچھ خوشیاں ہوتی ہیں، کچھ خوشی کے پلوں کی یادیں ہوتی ہیں، کبھی غم آتا ہے، بدلی بھی چھا جاتی ہے، رونا بھی ہوتا ہے، زندگی بیت تی جاتی ہے، وقت کٹتا جاتا ہے، پھر ایک پل ایسا بھی آتا ہے کہ تب وہ خوشیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی رونا ہنسنا، کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ساتھ، اب بس قصے ہیں، کہانیاں ہیں، یادیں ہیں۔ اب تو صرف غم ہوتا ہے، غم ہوتا ہے، غم ہوتا ہے۔ یہ زندگی کے کروٹ لینے کا وقت ہوتا ہے کہ جب قصہ ختم ہونے لگے، کہانی کی دیپ بجھنے لگے، قلم کی سیاہی مٹنے لگے، کتابوں کے پنے بھی جانے لگے۔ پوچھ مت اس وقت کو، اس الوداع کو کیا نام دوں! ہماری بھی کہانی ہے، ہمارے بھی قصے ہیں، ہماری بھی کتاب ہے اور اس کتاب کے پنے ہیں، پھر کبھی نہ کبھی اسے بھی تو ختم ہونا ہی تھا... غم میں شرکت کو میرے میں تیار تھ بحر و دریا بھی بہنے کو صد بار تھا (خیام خالد) وقت گزرا اور کافی گزر گیا، میری بھی عمر ہوئی چاہتی ہے، لگتا ہے میرے والدین میرا نکاح کردیں گے۔ روزیہ نے کہا۔ وہ؛ پر پر... پھر پھر... یہ کیسے؟ میں سمجھ نہیں پایا، ہماری بھی تو اک جوڑی ہے، آخر تم تھوڑا انتظار کروا نہیں سکتی؟ پریشان میں بھی تھا اور مجبور وہ بھی۔ کیسے بتاؤں وہ پل، سچ پوچھ میرا ہاتھ تھر تھر کر رہا اور دل کاپنے لگا، آخرش ہمارا دل ٹوٹا، ہماری آنکھیں بہیں، جان بھی نکلی اور مجھے کہہ لینے دو کہ میں نے روح کو، اپنے آپ کو کھو دیا۔ کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو خواب آغاز ایسے کچھ ہوا اک میں تھا دل لگانے کو سمجھ تھی، بوجھ تھا نہ عقل تھی ایک دل تھا محبت میں ڈوب جانے کو پھر جو دیکھا اسے تو دیکھا اسے ایسا سرخ چہرہ، حسین پلکیں، قاتلانہ نگاہوں کو ادائیں بھی اس کی خوب سی تھیں ہم تو ہم تھے، مار ڈالا زمانے کو پھر بخار مجھ کو بھی اس کا چڑھا نہ جانوں خود کیا ہوا مجھ کو وقت گزا گزرتے رہا وقت پر اور چڑھنے لگا مجھ کو اس کا سحر اب جاں ہی رہی نہ دل میرا رہا میں چل پڑا خود کو بھلانے کو کرم تھا رب کہ اس کو بھی قربت ہوئی بیج چاہت کے میرے وہ بونے لگی نزد دو دلوں کو جو سینے لگے بہار خوشیوں کی مجھ کو بھی چھونے لگے درمیاں اس ہماری کہانی چلی فرحت کی اپنی جوانی چلی پھر آنا تھا، آگیا انقلاب چاہت کا اب ہو گیا سد باب طرف اک ہوا ہم کے چلنے لگی جس میں جاں اس کے جلنے لگی گیا نزد، فرحت محبت خوشی اک ہوا ایسی بھی چلنے لگی دیپ پیار کے سب بجھے دیے نفرتوں کے بھی جلنے لگے وقت گزرے جو تھوڑے زمانے ہوے درد اس کو بھی کچھ مچھ جلانے لگے وہ آئی مگر پھر گئی ایسے ہی ان٘تِم کہانی ہوئی اب پوچھتا کیا ہے، کا ہوا مجھ کو گم سم وجود کھو چکا خود کو کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو

  • روداد عشق (۱) بقلم خیام خالد

    یہ عشق بھی بڑی عجیب چیز ہے، رلاتی بھی ہے، تڑپاتی بھی، راتوں کے نیندوں کو کھا جاتی بھی ہے؛ اس میں درد ہے، آہ ہے، حسرت و یاس ہے، بے چینی اور کلبلاہٹ ہے، تڑپ اور تکلیف ہے، سوز اور افسوس ہے۔ غم کی زمین ہے، تو آنکھوں کی نمی کا دریہ بھی، بے جا تکالیف کا راستہ ہے یہ، تو بے انتہا درد کا سامان بھی، اس کے بعد بھی دل میں سما جانے والا، روح میں گھل جانے والا، اور روح میں رچ بس جانے والا محبوب ہے یہ عشق۔ بہت بے کیف ڈھنگ ہے اس کا، کافی خوفناک ہے، کتنے کیسے برے نتیجے ہیں اس کے، وہ تو اک ڈراؤنا خواب ہے، اس کا وجود سرخ نہیں کالا ہے، اس کی ہیئت سیاہ ہے، اس کی بولی بھاری بھرکم ہے، اس کی چال بیہودہ بے ڈھنگی ہے، اس کا وقت تاریک ہے، بل کہ وہی اک عجوبہ ہے؛ پھر بھی دل میں کھلنے والا احساس ہے، زباں پہ چڑھ جانے والا ذکر ہے وہ، گلے میں اترنے والی دوائی ہے، بیمار دل کا علاج ہے، روح کی وہ مٹھاس ہے، زندگی کی جان ہے، حیات کی پیاس ہے اور وہی اس پیاس کی سیرابی ہے۔ اس‌سے جتنا بھی بھاگیں اتنا ہی قریب آتا ہے یہ، دور بھگائیں تو دل میں گھس جاتا ہے، منہ پھیرنے پہ سانسوں میں بس جاتا ہے، کٹھورتا دکھائیں تو "سب رس" بن جاتا ہے یہ، اک انوکھا چمبک ہے، جدائی کی تدبیروں میں ملنے کی آرزو دلاتا ہے، نفرت کے جال میں چاہتوں کو بنتا ہے، غصہ کے آگ میں بھی الفت کی بوندیں برساتا ہے، لغزشوں میں کھلی آنکھوں پر پٹی بن جاتا ہے، چمکتے سورج کو ٹمٹماتے تارے اور بجھا سا چاند کو روشن کہلوادیتا ہے، دن کو بھی رات بنا دیتا ہے۔ بھر ان سب سے سوا حیرت ہے کہ کوئی اس سے بچ نہ سکا، میں آپ سب دیوانگی سے گزرے ہیں، اس محبت نے ہر کسی کا رستہ کاٹ رکھا ہے، سب کے وجود کا سایہ ہے، جیون کا ساتھی، سفر کا ہم راہ اور زندگی کی ریت ہے۔ ہر کسی نے نسیم محبت کے جھونکے کھائے ہیں، ہر کوئی عشق میں تڑپا ہی تڑپا ہے، چاہت میں جلا بھنا ہے، محبت میں لڑا ہے، سوزش عشق میں، والہ و شیدائی میں غم و درد کو جھیلا ہی ہے، دیوانگی عشق میں آنکھیں نم کی ہی گئیں ہیں... کوئی ہے جو کہہ دے کہ میں نے محبت کا مزہ نہیں چکّھا، مجھے عشق کی ہوا نہ لگی، چاہت کی گلیوں سے نہیں گزرا، الفت کے بیج نہ بوئے، مودت کی بولی بولا اور نہ سنا، دیوانگی کے ڈرامے نہ دیکھے، جنون اور پاگل پن کی دنیا نہ دیکھی؟ چاہے گوشت پوشت کے انسان سے ہو، کسی دوسری مخلوق سے، کسی فن سے ہو، خود سے ہو یا اصل معشوق سے؛ ہر کسی نے محبت کی ہے، عشق کیا ہے۔ دوسری کی کیا سناؤں میں نے خود کتنے کہاں دور عشق دیکھے ہیں، کسیے کسیے لیلی اور مجنوں کو دیکھا، کسیے محبت کے پنچھی دیکھے، چاہت کی لوری دیکھی، عشق کے افسانے سنے، وہ روداد، دیوانگی کے ترانے، دل لگی کی کہانیاں، تال میل کے قصے، جگرے دیوانے تو دبُّو اصحاب مے خانے دیکھے، اس کی تڑپ بھی دیکھی اور اس میں جلتے دیوانوں کو بھی، سلگتے شعلے دیکھے اور جھلستے جسموں کو بھی، بازی ہارے چہروں پہ قہقہے دیکھے تو جیتی آنکھوں میں آنسو بھی، شیروں کا بھیگا پن دیکھا، تو ڈگمگاتے قدم، کپکپاتے ہونٹ، لرزتے زبان کی جرئتیں بھی دیکھی، اور کیا بتاؤں محبت کی بھوک بھی دیکھی اور اس عشق کا پیاس بھی۔ ....... بڑے عجوبے قصے سنے سنائے، لیکن اک دوست کا قصہ کچھ زیادہ قریب سے دیکھا اور کافی کچھ سیکھا، اس کی داستان اسی کی زباں بن کر سنائے دیتا ہوں: اکیلے کی زندگی ہی اچھی ہوتی ہے، تنہائی ہی بہتر ہے، لوگ کتنے بھی قریب کیوں نہ ہوجائیں، ہماری چلنے والی سانس بن جائیں، دھڑکنے والا دل بن جائیں، تب بھی لوگ لوگ ہی رہتے ہیں۔ کہاں سے اپنا سفر عشق بتاؤں، ہمت نہیں ہوتی کہ ال لفظ بھی لکھوں، وہ یادیں تڑپاتی ہیں، دل کو جلاتی ہیں، بے بس بے چین کرتی ہیں، بے سہارا، اپاہج بنا دیتی ہیں۔ کبھی تڑپ کر رہ جاتا ہوں، کبھی بے ساختہ آنکھیں بہہ پڑتی ہیں، کبھی دل ٹوٹتا جاتا ہے، تو کبھی جان نکلتی رہتی ہے۔ میرے گیت نہ سنو ہو تم آنسو میرے نہ گنو ہو تم ٹوٹتے ستارے پہ ہے نظر ٹوٹے دل سے ہو گم سم (خیام خالد) کبھی ان کو اپنی گیت میں ڈھالوں ہوں تو کبھی رسالے لکھ ڈالوں ہوں بہت بے کیف ہے زندگی مری میں ہی جانو، کیسے خود کو سنبھالوں ہوں (خیام خالد) اسی تڑپ میں کیا کچھ نہ کیا، لیکن درد کم کیا ہو؟ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا سوزش بڑھتی ہی رہی، دل ٹوٹتا ہی رہا، روح بھی نکلتی ہی رہی، اب تو میرا "میں" بھی ساتھ نہیں دیتا! کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو (خیام خالد) لوگ کہتے ہیں میں سمجھ سکتا ہوں، غم نہ کریں"۔ بالکل جھوٹے ہیں وہ لوگ، کون سمجھے گا دل کی کیفیت، روح کی تڑپ، بے ساختہ آنسو، بے چین حالت، مرجھایا چہرہ، وہ احساس، جذبات، تکلیف، درد، پریشانی، جان جاںکنی، کون سمجھے گا اپنے آپ کو کھونے کا کڑوا پن۔ کبھی کسی (غیر فیملی) کی یاد میں رویا نہیں، کسی کی جدائی میں تڑپا نہیں، وہ پہلی اور شاید آخری تھی جس کے لیے میرا پتھر دل موم ہوچکا تھا، آنکھیں بہہ پڑی تھیں، بے حواس ہو گیا تھا، دیوانگی چھا گئی تھی، جنون منڈرا رہا تھا، جگنا آسان تھا اور نہ ہی سونا، اک زندہ لاش بنا دیا تھا: ترے عشق نے کیا بنا دیا ہمیں کہاں تھا میں، کہاں لا دیا ہمیں (خیام خالد) روزیہ" اس کا پیارا سا نام تھا، پیار سے اسے روز (Rose ) بلایا کرتا تھا، بڑے انوکھے انداز سے ملاقات ہوئی، وہ بھی بڑی عجیب کہانی ہے، جیسے کوئی پارینہ قصہ۔۔۔۔

  • کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو | غزل خیام خالد

    کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو خواب آغاز ایسے کچھ ہوا اک میں تھا دل لگانے کو سمجھ تھی، بوجھ تھا نہ عقل تھی ایک دل تھا محبت میں ڈوب جانے کو پھر دیکھا اسے تو دیکھا اسے ایسا سرخ چہرہ، حسین پلکیں، قاتلانہ نگاہوں کو ادائیں بھی اس کی خوب سی تھیں ہم تو ہم تھے، مار ڈالا زمانےکو پھر بخار مجھ کو بھی اس کا چڑھا نہ جانوں خود کیا ہوا مجھ کو وقت گزا گزرتے رہا وقت پر اور چڑھنے لگا مجھ کو اس کا سحر اب جاں ہی رہی نہ دل میرا رہا میں چل پڑا خود کو بھلانے کو کرم تھا رب کہ اس کو بھی قربت ہوئی بیج چاہت کے میرے وہ بونے لگی نزد دو دلوں کو جو سینے لگے بہار خوشیوں کی مجھ کو بھی چھونے لگے درمیاں اس ہماری کہانی چلی فرحت کی اپنی جوانی چلی پھر آنا تھا، آگیا انقلاب چاہت کا اب ہو گیا سد باب طرف اک ہوا ہم کے چلنے لگی جس میں جاں اس کے جلنے لگی گیا نزد، فرحت محبت خوشی اک ہوا ایسی بھی چلنے لگی دیپ پیار کے سب بجھے دیے نفرتوں کے بھی جلنے لگے وقت گزرے جو تھوڑے زمانے ہوے درد اس کو بھی کچھ مچھ جلانے لگے وہ آئی مگر پھر گئی ایسے ہی ان٘تِم کہانی ہوئی ۔۔۔ اب پوچھتا کیا ہے، کا ہوا مجھ کو گم سم وجود کھو چکا خود کو کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو خیام خالد

  • فکری ارتداد اور سد باب|فکری ارتداد کی بے شعوری (اور سد باب) پر ایک جدید تحقیقی مقالہ بقلم خیام خالد

    از خیام خالد: https://Twitter.com/khaiyamkhalid/ فکری ارتداد اور سد باب مضمون سے پہلے: “ارتداد" اپنے آپ میں جتنا نازک مسئلہ ہے اتنا ہی دشوار بھی؛ اس کی مثال دو کناروں کو باندھے اس لچیلی ڈور کی سی ہے، جس پر سختی اور سنگینی ممکن ہے، اور نہ ہی جس پر ڈھیلائی اور نزاکت کی گنجائش ہے۔ یہ بحث خود میں اک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔۔۔ یوں تو ہمارے اکابر اور علماء نے اس پر بڑی باریک بینی سے کام کیا، خون جگر سے لکھیڑیوں نے لکھا، دانشوروں نے اپنی بُدھی استعمال کی، اور نگاہ و بصیرت والے بھی ہر ممکن قدم اٹھانے سے نہ رکے؛ لیکن ڈھلتے وقت اور چڑھتے شام، بجھتی روشنی اور چھاتی تاریکی میں چھوٹے تو کچھ بڑے چراغوں کے ساتھ نئے پرانے لائٹس کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ فتنہ ارتداد کی تاریخی، فروعی، قانونی، اختلافی نظر، اس کی اہمیت و اثرات وغیرہ پر بحث سے در کنار، اس نازک ترین گھڑی میں پس پردہ سیاہی کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے سب سے بنیادی نظر "نفسیات" کی ہے، جو آج کی تحقیق کا غرض ہے۔ چوں کہ فکری ارتداد اک عام موضوع ہے، جس کی بہت سی شاخیں اور اس پر کلام کے مختلف زاویے ہیں، اسی لیے میں نے اس میں کچھ حد بندی کر، اسے اک الگ موڑ دیا اور اپنی تحقیق کا نام "فکری ارتداد کی بے شعوری (اور اس کا سد باب)" رکھا۔ کیوں کہ کبھی اک بات کو پھیر پھیر کر بیان کرنے کا فائدہ خاموش مضمون کے بیان سے کم تر ہوا کرتا ہے۔ فکری ارتداد کی بے شعوری (اور سد باب) ترتیب: ۱: حقیقت ارتداد۔ ۲: اصولی ذرائع۔ ۳: درجات ارتداد۔ ۴: سد باب۔ حقیقت ارتداد بھلے ہی اس کے آغاز کا نام الگ الگ ہو کہ کبھی ملی کہلائے، تو کبھی فطری¹، لیکن اس کے انجام کا ڈھنگ ایک ہی ایک ہے "گمرہی"۔ لغت: محيط: "ارتد : ارْتَدَّ يَرْتَدُّ ارْتِدَاداً : رجع وعاد وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِين. - عن دِينه: كفر بعد إسلام مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ/ ارتدَّ إلى الصواب/ ارتد على عقبيه، أي رجعِ من حيثُ أتىِ/ ارتد إلى الوراء/ فارْتدَّ بَصِيراً أي عاد بصيراً. - ـه: استرجعه؛ ارتد حقه منه." اسی کے مثل کچھ اختلاف الفاظ کے ساتھ معجم الغنی، معجم اللغة العربية المعاصرة، غريب القرآن، تاج العروس، قاموس وغيره میں ہے۔ علماء نے اس پر سیر حاصل بحث کی اور کیا خوب کیا۔ تاریخ پر ان کے کلام سے اک لطیفہ ملتا ہے: • جس طرح جنگ کبھی ہاٹ وار (hot war) کی صورت میں ہوا کرتی ہے، تو کبھی کولڈ وار (cold war²) کی صورت میں۔ بالکل اسی طرح نظریاتی جنگ بھی کبھی عقل و شعور (consciously) سے ہوتی ہو، تو کبھی بنا احساس کے (subconsciously)۔ • جیسے کولڈ وار نہایت بے درد ہے، ظالم ہے، بالکل ویسے ہی نظریاتی جنگ کی بے شعوری مہلک ہے، گمراہی اور تاریکی میں ڈالنے والی ہے۔ اس نکتہ سے نظریاتی جنگ کا دو رخ معلوم ہوتا ہے: نظریاتی جنگ: تعریف: “clash of visions, concepts, and images, and—especially—the interpretation of them."³ اک دوسری تعریف: "نظریاتی جنگ وہ جنگ ہے، جو کفار غیر فوجی وسائل کے ذریعے مسلمانوں کو مسخر کرنے اور ان کے عقائد، فکر، رسم و رواج، اخلاق اور زندگی گزارنے کے اسلامی ڈھانچے کو یکسر بدلنے کے لیے لڑتے ہیں۔ تاکہ مسلمان اپنے انفرادی تشخص سے محروم ہوجائیں اور انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں مغرب کی تقلید کرنا پڑے۔ نیز کفار کے خلاف کسی مسلمان کے ذہن میں عسکری جنگ کا تصور باقی نہ رہے۔⁴" اس سے آج خندق کا وہی سماں یاد پڑتا ہے، جس سے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم دو چار ہوے۔ قرآن کہتا ہے: "وبلغت القلوب الحناجر⁵"۔۔۔ اس کے دو رخ ہیں: کلام کی بنیادی بات: لکھنا، پڑھنا، پرکھنا، سمجھنا، سوچنا اور تصور کرنا اور تمام ہی کاموں کا دار و مدار "خیال" (Thought) پر ہے⁶۔ اس تحقیق کو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے حل فرمادیا، فقال: "إنما الأعمال بالنيات⁷". پھر یہ خیالات بھی ۲ طرح کے ہوتے ہیں۔ اک تو وہ جس کا ہمیں شعور ہو، جیسے:میں پڑھ رہا ہوں" کہنا کہ مجھے اس کا شعور ہے، اسی طرح یہ سو چنا کہ میں سوچ رہا ہوں جیسے احوال اس میں شامل ہیں۔ اس طرح کے ذہن کو کانسشس(conscious mind) ذہن کہتے ہیں۔ دوسرا وہ ذہن ہے جس میں خیالات تو ہوتے ہیں، آتے جاتے ہیں اور وہ کام و عمل کا سبب بھی بنتے ہیں، لیکن ہمیں ان خیالات کا شعور نہیں ہوتا، مثلا: اب تک ہم اس مضمون کو پڑھتے آرہے ہیں، لیکن اس کو پڑنے کے خیال کا شعور ہمیں نہیں تھا، اسی طرح چلنا، سونا، سانس لینا، کھانا پینا وغیرہ کہ یہ سارے کام ہم بنا خیال کے احساس کے ہی کرتے ہیں۔ ایسے ذہن کو آن کانسشس ذہن (Unconsciousmind) کہتے ہیں۔⁸ اس سے سابقہ ہماری زندگی میں ہمیشہ کی بات ہے۔ قرآن کہتا ہے: شیطان نے کہا: "وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ⁹." "قال فبما أغويتني لأقعدن لهم صراطك المستقيم ، ثم لآتينهم من بين أيديهم ومن خلفهم وعن أيمانهم وعن شمائلهم ولا تجد أكثرهم شاكرين¹⁰." اور اسی قبیل کی دوسری آیات۔ حدیث میں آتا ہے: "قال رسول الله ﷺ: إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط، حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضي الأذان أقبل، حتى إذا ثوب للصلاة أدبر ، حتى إذا قضي التثويب أقبل، حتى يخطر بين المرء ونفسه، يقول: اذكر كذا، واذكر كذا، لما لم يكن يذكر من قبل، حتى يظل الرجل ما يدري كم صلى¹¹." ان آیات سے صاف صاف معلوم ہوتی ہے ہمارے عمل کی گتھیاں... اسی طرح نظریاتی جنگیں بھی کی جارہی ہیں کہ کچھ کا ہمیں احساس تو ہے اور کچھ کی بھنک بھی نہیں! کچھ تو وہ ہیں جن کا کھلم کھلا تماشا کیا جارہا، جیسے: اعتقادی مسائل پر بحث۔ اور کچھ کا سناٹا ایسا جیسے بن بادل برسات، مثلا: سوشل میڈیا کا ایلگوریدم (ایل گو ریدم/Algorithm)¹²۔ )سوشل میڈیا کس طرح کام کرتا ہے؟ کیسی خرابیاں اور افواہیں ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں¹²) کانشس نظریاتی جنگ کی ہوا دن بدن تیز ہوئی چلی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فتنوں کی خبریں دم بدم سننے کی ملتی ہیں¹³... جہاں نظریاتی جنگ کے اس پہلو پر لوگوں نے کمریں سیدھیں کیں، ہاتھ پاؤں پھیلائے اور زبان و قلم دراز کیا، تو وہیں ہمارے اکابر نے ان کا کمر اور منہ توڑ جواب بھی دیا۔ اطمینان بخش بولی بھی بولی، اللہ ان پر رحم کرے۔ لیکن ایک رخ اب تلک قلم سے گُم سُم اور بحث و نظر سے روپوش ہے۔ اس خوں خوار جنگ میں خموشی سے ادھ نقاب بیٹھا ہے۔ ہمارے اکابر نے اس موضوع پر کبھی قلم پھیرا، تو کہیں بہت سے نکات کے بیان سے رہ گئے۔ انہیں ان کانشس سازشوں کے اصولی ذرائع کا کچھ تذکرہ چھیڑتے ہیں: اصولی ذرائع: اس سے پہلے اک اصولی بات سمجھ لیں: جذبات کا عقل پر قابو: ڈانیل گول مین (Daniel Golemam) نے اپنے کتاب (Emotionalintelligence) "جذباتی قوت" میں اک باب باندھا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ کبھی کبھار کچھ چیزوں کو لے کر ہمارے ذہن میں جذبات کا قبضہ ہو جاتا ہے اور عقل مغلوب ہو جاتی ہے، مثلا: "آگ دیکھ کر بھاگنا" کہ اس وقت آدمی اس سوچ سے دور ہوتا کہ بھاگوں یا نہیں، وہ بس لت پت بھاگنے لگ جاتا ہے¹⁴۔ کچھ یہی حال دوسری چیزوں کا بھی ہے، جہاں عقل مغلوب ہوجاتی ہے اور خالص جذبات فکر و عمل کی بنیاد بن بیٹھتیں ہیں۔ کبھی یہ آنا فانا ہوجاتا ہے، تو کبھی رفتہ رفتہ اس کا خمار چڑھتا ہے اور جب اس کا نشہ چڑھ جائے تب آدمی "Naïverealism/cynicism ¹⁵" کا شکار ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی کوتاہ نگاہوں میں سچ وہی ہے جو وہ دیکھتا، سوچتا اور سمجھتا ہے۔ اصولی ذرائع: ۱: اجارہ داری/Monopoly مونوپولی: یعنی ایسی اجارہ داری جہاں خریدار بہت ہونے کے باوجود، کوئی ایک بیچنے والا اک مارکیٹ پر قابض ہو کہ سب کے سب اسی سے خرید بیچ کرتے ہوں۔ “In law, a monopoly is a business entity that has significant market power, that is, the power to charge overly high prices, which is associated with a decrease in social surplus.¹⁶” اس کے برے اثرات کی بنیاد پر اس کی مذمت قرآن و حدیث میں آئی ہے: قرآن کہتا ہے: "كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ"¹⁷ "قَالُواْ يَٰشُعَيْبُ أَصَلَوٰتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَآ أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِىٓ أَمْوَٰلِنَا مَا نَشَٰٓؤُاْ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ ٱلْحَلِيمُ ٱلرَّشِيدُ"¹⁸ کہ اس میں اللہ تعالٰی نے اس کی مذمت فرمائی¹⁹۔ حديث: لا يبع حاضر لباد" اور اس کے مثل احادیث کہ اس میں اجارہ داری کا بھی اندیشہ ہے۔ ¹⁹(تحقیق من) اس کے وجوہات میں سے اک یہ بھی ہے اس میں اپنی اور اپنے ساتھ دوسرے کے گمرہی کا پکا امکان ہے۔ گر کوئی اجارہ داری ہو جائے، تو اکثر لوگ چاہے نہ چاہے اس کے پاس جھک ہی جاتے ہیں۔ اب جب سرمایہ داری ان کے ہاتھوں میں ہےتو بنیادی طور پر ہمیں مجبورا ان کے آگے جھکنا پڑتا ہے، چنان چہ آج اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں، اسی طرح ہسپتالوں اور کمپنیوں میں پہننے اٹھنے کا ڈھنگ، بات چیت اور اختلاط فاحشہ کا رواج آج کا کلچر بن پڑا ہے۔ اسی کی وجہ آج سارے عالم میں ان کے اداروں کی حد پار اہمیت ہے، مثلا کوئی مکہ اور مدینہ کی بات کرے کچھ اور اثر ہے اور جب ترقی یافتہ ملکوں کے نام لیے جائیں تو آنکھوں کی چمک کچھ اور ہے۔ یہی تو اسلام کی سنگ و بنیاد ڈھیلی ڈھالی کرتی ہے۔۔۔ اور انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ اس کو مزید بڑھاوا دینا اور اس کی ترغیب دلانا ان کا مشعل راہ ہو چکا ہے²⁰۔ ۲: بہیمیت کی دعوت: پھر ان کا اک بڑا ہتھیار چُپی سے ملکوتیت چھوڑ، بہیمیت کی دعوت دینا ہے اور فحاشی کو مختلف زاویوں سے عام کرنا ہے، مثلا: مرد و زن کا بنا شادی کے غلط رابطہ (GF/BF)، کھلم کھلا فحش کو عام کرنا اور ایسے فحاشی کو اوپن مائنڈ (Open-minded) کا نام دینا۔ الغرض انسانوں میں جانوروں کی سی صفت پیدا کرنا۔ اور یہ برائی بنسبت نیکی اور بھلائی کی دعوت دینے کے زیادہ آسان ہے اور اس میں نفس اور شیطان کا بھی ساتھ ہے²¹۔ اور چوں کہ ان کے بڑائی کا اثر سبھوں کے ماتھے پہ چڑھا اسی لیے یہ ان کے راہ میں اور بھی زیادہ آسانیاں آ گئیں۔ ۴: بینڈ ویگن ایفیکٹ/Bandwagon effect bias (اس بہیمیت کو عام کرنے کا سب سے بڑی سازش یہ bias/بایس ہے کہ جو کچھ بھی حیا اور شرم باقی ہے، اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔) بینڈ ویگن ایفیکٹ بایس: جب کچھ لوگ کسی چیز ماننے یا کرنے لگے، تو دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں²¹۔ پھر جوں جوں لوگ اسے اپناتے جاتے ہیں، تب تب اس میں شامل ہونے والوں کا نمبر تیزی سے بڑھنے لگتا ہے²²۔ اس کا سب سے خطرناک اثر تب پڑتا ہے جب کوئی باحیثیت شخصیت، طبقہ، گروہ جماعت ہا کوئی با اثر قوم اسے اپنالے۔ اس کی سیدھی سادہ سی مثال آج ویسٹرن کلچر (Western-culture) کے پیچھے پیچھے ناچنے کی ہے۔ سارا عالم خود کو ان کے رنگ میں رنگنے لگا، مزاج اور مذاق، راہ و ڈھنگ، سجاوٹ و طریقہ، اوڑھنا بچھونا اور بناوٹ و سلیقہ سے لے کر کہاں تک نہیں۔ فیشن وہی ہے جو کریں، گر بالوں نیلا پیلا کرواکیں تو وہ بھی، منڈوا لیں تو وہ بھی، کانوں میں بالی، ناک میں نتھیا، بدن پہ ٹیٹو، زباں پہ گالی اور دماغ میں خباثت ہو تو بھی۔ گر نظریں اٹھائیں تو کوئی ایسی جگہ نہیں ملتی جہاں انہوں نے اپنے چاپ و نقوش نہ چھوڑے ہوں۔ ہر فرد سر سے پیر تک اسی رنگ میں رنگ چکا ہے، اسی کے ڈھنگ میں ڈھل چکا ہے۔۔۔ پھر اسی ایفیکٹ کا دوسرا استعمال ان کا اپنی صفائی، اچھائی اور خوبی بیان کرنے کا ہے کہ کتنے سادہ لوح ہیں، سدا وفا اور صدق و امانت کی بولی بولتے ہیں، لڑنے مرنے سے ان کا اس واسطہ! توبہ توبہ۔ یہی تو ہیں جو دنیا میں امن اور پیس (Peace) کے علم بردار ہیں۔ اسی ایفیکٹ کے سہارے ایسی قانون دانی کرتے ہیں، جن کو سمجھے کے لیے عقل گھٹنے میں ہونی چاہیے اور پھر ان کو رواج دینا، جیسا کہ آئے دن نئے عجوبے مدے سامنے آتے رہتے ہیں اور اس اندرونی طور پر اس سے اسلامی احکام پر ضربیں پڑتیں ہیں۔ پھر چوتھی تدبیر کچھ چھپ کر تو تھوڑا آگے پیچھے کر کے حملہ کرنے کی ہے کہ آدھے ادھورے اسلامی ملک (جہاں بس یہ کہ مسلمانوں کی آبادی ہوتی ہو، خواہ پورے ملک میں یا ملک کے کسی حصہ میں) مثلا: کچھ ملکوں میں عورتوں پر ظلم کے مسائل، جنگ و فساد کی لہر کا تذکرہ، قتال و قتل کی ہوا، بچوں پر حیوانیت کے چرچے اور انسانیت کے ختم کرنے کے پروانے سوشل میڈیا پر عام کیے جاتے ہیں، جن کا عام طور پر حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ )اس میں تحقیق اور بھی ہے، لیکن؛ وقت ساتھی سے جدا ہوتا ہے کون؂) درجات ارتداد: ان سازشوں کے سایہ میں لوگوں کی مختلف طبقے نظر آتے ہیں: ۱: کچھ تو ہیں، جنہیں ان کے اثر نے مار ڈالا ہے، وہ مکمل خود کو کھو چکے ہیں اور رفتہ رفتہ اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ۲: بعض وہ ہیں جن کے دلوں کے شبہات اور شکوک نے کھوکھلا کر ڈالا کہ بس ایک ذہن سازی اور قصہ تمام۔ ۳: ایک طبقہ وہ ہے، جو شکوک سے دور ہیں اور اسلام کو مانتے ہیں، لیکن ان کی زندگی اپنی نہیں رہی، بل کہ ان کے ہاتھوں خاہشوں میں سودا کر کی گئی۔ ۴: اور افسوس کہ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو اپنے کو آن کے مخالف گردانتے ہیں، لیکن اصلا ان کی بُدھی دبی کچلی جا چکی ہے، ان کا زاویہ فکر اسلامی نہیں رہا، وہ خوف کھاتے ہیں کہ بیان ایسا ہو جو اس معاشرہ کے خلاف نہ اترتا ہو (اور خوف ایسا کہ خود انہیں بھی اس کا احساس نہ ہو، مگر ان کا عمل اور ان کی زبان ان کے ڈر کی ترجمانی کرتی ہے)۔ رفتہ رفتہ ان کے فقہ و فتاوی کا زیر و زبر بھی بدلنے لگا، کبھی سود کی حلت سامنے آتی ہے، تو کبھی فواحش کے جواز کا فیصلہ اور فتوی سامنے آتا ہے۔ الغرض، اب وہ اپنے قابو میں نہیں، بل کہ ان کے دماغ و دل پر کسی اور کا ہی قبضہ اور کنٹرول ہے۔ سد باب: اب سوال اٹّھا کی اس کا راستہ کیسے صاف کیا جائے؟ اس مختلف طریقے ہیں، لیکن مختصر یہ کہ: 1- تعلیمی ترقی: مناسب مدارس و مکاتب اور موزوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام کہ علم ہی بتلائے گا نا کہ دنیا میں سب سے زیادہ "امن! امن!" کا نعرہ لگانے والی جماعت (امریکہ)سب سے جنگ و فساد کی جڑ ہے²³۔ 2- اس تعلیم کا استعمال: الف: اسلامی دعوت و تبلیغ میں۔ ب: سیاست میں۔ ج: ہسپتالوں کے قیام میں۔ د: معیشت میں۔ ہ: میڈیا، سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی میں۔ اور بھی دیگر ذرائع ہیں لیکن بنیادی طور پر یہی چند راستے ہیں جن پر چل کر اس جنگ کو جیتنا ممکن ہے۔ انتهي حوالہ جات ۱: المساک، جزء: ۱۵، ص: ۲۳۔ 2: The Yale book of quotations. P. 569/857/1062. Published in 2006. Publisher: New haven, Yale university press. Isbn: 9780300107982. 3: A: Antulio Joseph Echevarria (June 2008). Wars of Ideas and the War of Ideas (PDF). SSI Monographs. Carlisle, PA: Strategic Studies Institute of the US Army War College. p. 63. ISBN 978-1-58487-359-4. B: ISBN 1-58487-359-0 WARS OF IDEAS AND THE WAR OF IDEAS Antulio J. Echevarria II June 2008 Page 7 4: عالم اسلام پر فکری یلغار از شیخ عبد الہادی مجاہد حفظہ اللہ۔ ص: ۲۸۔ 5: قرآن: پارہ: 6: A: a man thinketh. Chapter 1: thought and character. Isbn: 9789389157284 ■: Thought and action 1959 book by Stuart Hampshire. ■: The power of your Subconscious mind ■: the power of your thoughts by swami mukundananda: chapter: Thoughts are precursors to action. 7: ↑ رواه البخاري، في صحيح البخاري، عن عمر بن الخطاب، الصفحة أو الرقم:1.و في مقام شتي:رقم الحديث: ٥٤، ٢٥٢٩، ٣٨٩٨، ٥٠٧٠، ٦٦٨٩، أخرجه مسلم: باب قوله صلي الله عليه وسلم أنما الأعمال بالنيات. رقم: ١٩٠٧ أخرجه داؤد: رقم: ٢٢٠١ ترمذي: ١٦٣٧. نسائي: رقم: ٧٥، ٣٤٣٧، ٣٧٩٤. وكذالك أخرجه غير واحد من المحدثين مثلا: طبراني، ابن ماجه، خزيمة، طيالسي، بزار، ابن العربي، ابو بكر الشافعي، ابو عوانة... 8: Power of your Subconscious mind: by Joseph Murphy. Chapter 2, part 1: How your own mind works? ٩: فصلت ٣٦ ١٠: أعراف ١٦-١٧ ١١: أخرجه البخاري في أبواب العمل في الصلاة، باب يفكر الرجل الشيء في الصلاة برقم (1222) ومسلم في كتاب الصلاة، باب فضل الأذان وهرب الشيطان عند سماعه برقم (389). 12: Crime and its fear in social media. A research paper of "palgrave communication" 13: Apostasy in Islam by country. Wikipedia encyclopedia. (Its not completely trustable because of the fake data against Islam...). 14:by Daniel Goldman. Part one, 2: Anatomy of an emotional Hijacking. ISBN: 978 93 82563 79 2emotional intelligence 15: 50 cognitive biases. From: Wikipedia encyclopedia, verywellmind.com 16: Wikipedia encyclopedia. Orbach, Barak; Campbell, Grace (2012). "The Antitrust Curse of Bigness". Southern California Law Review. SSRN 1856553. ١٧: حشر ۷ ١٨: هود ٨٧. ١٩: تكملة فتح الملهم، ج: ٧، ص: ٢٩٥. 20: zero to one. By: peter thiel. Isbn: 9780804139298. ۲۱: حجت اللہ البالغہ، بتحقيق العلام سعید بالن بوری رحمہ اللہ۔ ج: ۱، باب: ۹، ص: ۱۸۔ طبع اول: ۲۰۱۰۔ isn: 978-9953-520-94-0 22: Bandwagon effect bias: 50 cognitive biases 23: Wikipedia encyclopedia.

  • صحافت کیا ہے؟ | صحافت کی حقیقت

    صحافت کیا ہے؟ از خیام خالد صحافت سات "ک"۔۔۔ وہ اچھا ہے، برا ہے، بھولا بھالا ہے، اس کا بدن دبلا ہے، تو کبھی پتلا ہے، تو کبھی اسے دیکھ کر دنبہ اور فربہ کی یاد آتی ہے۔۔۔ کسی کو سمجھنے کے لیے اس کو جاننا ضروری ہے، پھر چیزوں کی تصویر کھینچنے کا سب کا اپنا اپنا انداز ہے۔ کچھ تو اس کے رنگ ڈھنگ پر نظر رکھتے ہیں، تو کچھ اس کے چال ڈھال پر۔ مگر ہر کوئی اس کی حقیقت کے تاک میں ہی ہوتا ہے۔ صحافت کی تعریف مجھے یہ سمجھ آتی ہے: "صحافت چھ نئے کاف کو منظر عام پر لانے کا نام ہے" انگریزی میں اسے 5W and 1H کہتے ہیں یعنی: 1Who. 2: What 3: When. 4: Where. 5: Why. And H for How? یعنی: کون، کیا، کہاں، کب، کیوں، کیسے۔ بعض نئے لوگوں نے ایک نئے H یعنی How many یعنی کتنا؟ خیر کسی نئے ایچ کو کو شامل کریں نہ کریں، ہماری زبان میں ان سب کے لیے ایک حرف "ک" ہی کافی ہے۔ ۱: کون۔ ۲: کیا۔ ۳: کہاں۔ ۴: کب۔ ۵: کیوں اسی طرح کیسے اور کتنے۔ تو صحافت چند نئے کاف کو جمع کر منظر عام پر لانے کا نام ہے، خواہ وہ اخبارات میں ہو، ٹی وی میں ہو، رسالوں پرچوں میں ہو، یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ہو۔ شاید سوال آتا ہو کہ ایک کمی ہے کہ کچھ نیوز ایسے بھی ہوتے ہیں، جن میں کل کی گزری خبریں بھی سنائی جاتی ہیں، جیسے فلاں منتری نے ووٹنگ سے پہلے تو ایسے ایسے دعوے کیے، روڈ بنوادوں گا، گاڑیاں الیکٹرانک چلوادوں گا، سیٹلائٹ پر ترقیاتی کام کرواؤں گا، وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ سب سن کر گر اسے جتا گیا، مگر جب وقت آیا تو: جن پہ تکیہ تھا وہی پتہ ہوا دینے لگے پھر جب ان کے دودھ سے دھلے دعووں کو سامنے لایا جائے کہ اس نے کہاں تک سچ کہا اور کہاں تک جھوٹ، تو ایسی تحقیقوں کو بھی نیوز کہتے ہیں، جب کہ بات تو پرانی ہے! در اصل حقیقت یوں ہے کہ صحافت کی شکلیں بھی الگ الگ سی ہیں، کسی میں پہلے کی باتوں کو نئے حالات کے ساتھ تولتے ہیں، کچھ کا حال سے ربط ہوتا ہے، تو کبھی کل کی باتیں بھی ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نیوز کی الگ الگ قسمیں بھی ہیں، مثلا: Hard new, soft news, active news, passive news, positive news, negative news, depth news, investigative news, breaking news, follow up news. اسی طرح نیوز کے سورس (Source) کے حساب اور ٹیکنالوجی (technology) اور انٹرویو وغیرہ کے اقسام کے اعتبار سے نیوز کی رنگت بدلتی رہتی ہے؛ مگر سبھوں میں ایک یکساں پہلو "نیا پن" کا ہوتا ہے۔ پھر مزید یہ کہ ان سات کافوں کوAccuracy; Brevity; Clarity. ABC i.e., کو بھی خصوصا نگاہوں کے سامنے رکھنا پڑتا ہے یعنی ان کافوں کو لکھنے میں صحت، اختصار اور صفائی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اور یہی نہیں ان سات کافوں میں مختلف چیزوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے، جیسے نیوز سورس، تحقیق، نفسیاتی بایس (Cognitive psychology e.g., Hueristic and bias)، حالات وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ صحافت کا نچوڑ ان ہی سات کافوں پر ہے اور صحافت ان ہی سات کافوں سے بنتا ہے۔ خیام خالد

bottom of page