top of page

روداد عشق (۱) بقلم خیام خالد


یہ عشق بھی بڑی عجیب چیز ہے، رلاتی بھی ہے، تڑپاتی بھی، راتوں کے نیندوں کو کھا جاتی بھی ہے؛ اس میں درد ہے، آہ ہے، حسرت و یاس ہے، بے چینی اور کلبلاہٹ ہے، تڑپ اور تکلیف ہے، سوز اور افسوس ہے۔


غم کی زمین ہے، تو آنکھوں کی نمی کا دریہ بھی، بے جا تکالیف کا راستہ ہے یہ، تو بے انتہا درد کا سامان بھی، اس کے بعد بھی دل میں سما جانے والا، روح میں گھل جانے والا، اور روح میں رچ بس جانے والا محبوب ہے یہ عشق۔


بہت بے کیف ڈھنگ ہے اس کا، کافی خوفناک ہے، کتنے کیسے برے نتیجے ہیں اس کے، وہ تو اک ڈراؤنا خواب ہے، اس کا وجود سرخ نہیں کالا ہے، اس کی ہیئت سیاہ ہے، اس کی بولی بھاری بھرکم ہے، اس کی چال بیہودہ بے ڈھنگی ہے، اس کا وقت تاریک ہے، بل کہ وہی اک عجوبہ ہے؛ پھر بھی دل میں کھلنے والا احساس ہے، زباں پہ چڑھ جانے والا ذکر ہے وہ، گلے میں اترنے والی دوائی ہے، بیمار دل کا علاج ہے، روح کی وہ مٹھاس ہے، زندگی کی جان ہے، حیات کی پیاس ہے اور وہی اس پیاس کی سیرابی ہے۔


اس‌سے جتنا بھی بھاگیں اتنا ہی قریب آتا ہے یہ، دور بھگائیں تو دل میں گھس جاتا ہے، منہ پھیرنے پہ سانسوں میں بس جاتا ہے، کٹھورتا دکھائیں تو "سب رس" بن جاتا ہے یہ، اک انوکھا چمبک ہے، جدائی کی تدبیروں میں ملنے کی آرزو دلاتا ہے، نفرت کے جال میں چاہتوں کو بنتا ہے، غصہ کے آگ میں بھی الفت کی بوندیں برساتا ہے، لغزشوں میں کھلی آنکھوں پر پٹی بن جاتا ہے، چمکتے سورج کو ٹمٹماتے تارے اور بجھا سا چاند کو روشن کہلوادیتا ہے، دن کو بھی رات بنا دیتا ہے۔


بھر ان سب سے سوا حیرت ہے کہ کوئی اس سے بچ نہ سکا، میں آپ سب دیوانگی سے گزرے ہیں، اس محبت نے ہر کسی کا رستہ کاٹ رکھا ہے، سب کے وجود کا سایہ ہے، جیون کا ساتھی، سفر کا ہم راہ اور زندگی کی ریت ہے۔


ہر کسی نے نسیم محبت کے جھونکے کھائے ہیں، ہر کوئی عشق میں تڑپا ہی تڑپا ہے، چاہت میں جلا بھنا ہے، محبت میں لڑا ہے، سوزش عشق میں، والہ و شیدائی میں غم و درد کو جھیلا ہی ہے، دیوانگی عشق میں آنکھیں نم کی ہی گئیں ہیں...


کوئی ہے جو کہہ دے کہ میں نے محبت کا مزہ نہیں چکّھا، مجھے عشق کی ہوا نہ لگی، چاہت کی گلیوں سے نہیں گزرا، الفت کے بیج نہ بوئے، مودت کی بولی بولا اور نہ سنا، دیوانگی کے ڈرامے نہ دیکھے، جنون اور پاگل پن کی دنیا نہ دیکھی؟


چاہے گوشت پوشت کے انسان سے ہو، کسی دوسری مخلوق سے، کسی فن سے ہو، خود سے ہو یا اصل معشوق سے؛ ہر کسی نے محبت کی ہے، عشق کیا ہے۔


دوسری کی کیا سناؤں میں نے خود کتنے کہاں دور عشق دیکھے ہیں، کسیے کسیے لیلی اور مجنوں کو دیکھا، کسیے محبت کے پنچھی دیکھے، چاہت کی لوری دیکھی، عشق کے افسانے سنے، وہ روداد، دیوانگی کے ترانے، دل لگی کی کہانیاں، تال میل کے قصے، جگرے دیوانے تو دبُّو اصحاب مے خانے دیکھے، اس کی تڑپ بھی دیکھی اور اس میں جلتے دیوانوں کو بھی، سلگتے شعلے دیکھے اور جھلستے جسموں کو بھی، بازی ہارے چہروں پہ قہقہے دیکھے تو جیتی آنکھوں میں آنسو بھی، شیروں کا بھیگا پن دیکھا، تو ڈگمگاتے قدم، کپکپاتے ہونٹ، لرزتے زبان کی جرئتیں بھی دیکھی، اور کیا بتاؤں محبت کی بھوک بھی دیکھی اور اس عشق کا پیاس بھی۔


.......


بڑے عجوبے قصے سنے سنائے، لیکن اک دوست کا قصہ کچھ زیادہ قریب سے دیکھا اور کافی کچھ سیکھا، اس کی داستان اسی کی زباں بن کر سنائے دیتا ہوں:


اکیلے کی زندگی ہی اچھی ہوتی ہے، تنہائی ہی بہتر ہے، لوگ کتنے بھی قریب کیوں نہ ہوجائیں، ہماری چلنے والی سانس بن جائیں، دھڑکنے والا دل بن جائیں، تب بھی لوگ لوگ ہی رہتے ہیں۔


کہاں سے اپنا سفر عشق بتاؤں، ہمت نہیں ہوتی کہ ال لفظ بھی لکھوں، وہ یادیں تڑپاتی ہیں، دل کو جلاتی ہیں، بے بس بے چین کرتی ہیں، بے سہارا، اپاہج بنا دیتی ہیں۔ کبھی تڑپ کر رہ جاتا ہوں، کبھی بے ساختہ آنکھیں بہہ پڑتی ہیں، کبھی دل ٹوٹتا جاتا ہے، تو کبھی جان نکلتی رہتی ہے۔


میرے گیت نہ سنو ہو تم

آنسو میرے نہ گنو ہو تم

ٹوٹتے ستارے پہ ہے نظر

ٹوٹے دل سے ہو گم سم (خیام خالد)

کبھی ان کو اپنی گیت میں ڈھالوں ہوں

تو کبھی رسالے لکھ ڈالوں ہوں

بہت بے کیف ہے زندگی مری

میں ہی جانو، کیسے خود کو سنبھالوں ہوں

(خیام خالد)


اسی تڑپ میں کیا کچھ نہ کیا، لیکن درد کم کیا ہو؟

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا

سوزش بڑھتی ہی رہی، دل ٹوٹتا ہی رہا، روح بھی نکلتی ہی رہی، اب تو میرا "میں" بھی ساتھ نہیں دیتا!


کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو

ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو

(خیام خالد)


لوگ کہتے ہیں میں سمجھ سکتا ہوں، غم نہ کریں"۔ بالکل جھوٹے ہیں وہ لوگ، کون سمجھے گا دل کی کیفیت، روح کی تڑپ، بے ساختہ آنسو، بے چین حالت، مرجھایا چہرہ، وہ احساس، جذبات، تکلیف، درد، پریشانی، جان جاںکنی، کون سمجھے گا اپنے آپ کو کھونے کا کڑوا پن۔


کبھی کسی (غیر فیملی) کی یاد میں رویا نہیں، کسی کی جدائی میں تڑپا نہیں، وہ پہلی اور شاید آخری تھی جس کے لیے میرا پتھر دل موم ہوچکا تھا، آنکھیں بہہ پڑی تھیں، بے حواس ہو گیا تھا، دیوانگی چھا گئی تھی، جنون منڈرا رہا تھا، جگنا آسان تھا اور نہ ہی سونا، اک زندہ لاش بنا دیا تھا:


ترے عشق نے کیا بنا دیا ہمیں

کہاں تھا میں، کہاں لا دیا ہمیں (خیام خالد)


روزیہ" اس کا پیارا سا نام تھا، پیار سے اسے روز (Rose ) بلایا کرتا تھا، بڑے انوکھے انداز سے ملاقات ہوئی، وہ بھی بڑی عجیب کہانی ہے، جیسے کوئی پارینہ قصہ۔۔۔۔


Comments


bottom of page