Search Results
951 items found for ""
Services (1)
- English language
One of the best platform to learn American English language in a simple way from beginning to very end
Blog Posts (8)
- ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ
ناقل: خیام خالد ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﭽﮧ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺑﭽﮧ ﮨﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ مثلاً: ﺳﺎﻧﭗ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﻟﻮ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﻠﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ حالانکہ ﺍﺭﺩﻭ میں ﺍﻥ ﮐﮯ لئے ﺟﺪﺍ ﺟﺪﺍ ﻟﻔﻆ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺜﻼً: ﺑﮑﺮﯼ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔ ﻣﯿﻤﻨﺎ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔۔۔ ﺑﺮّﮦ ﮨﺎﺗﮭﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔ ﭘﺎﭨﮭﺎ ﺍﻟﻮّ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔ ﭘﭩﮭﺎ ﺑﻠﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔۔ ﺑﻠﻮﻧﮕﮍﮦ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔ بچھیرا ﺑﮭﯿﻨﺲ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔ کٹڑا ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔۔ چوزہ ﮨﺮﻥ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔۔ ہرنوٹا ﺳﺎﻧﭗ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ۔۔۔۔ سنپولیا ﺳﻮﺭ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ۔۔۔۔۔۔ گھٹیا ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻌﺾ ﺟﺎﻧﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮﺟﺎﻧﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﮯ لئے ﺧﺎﺹ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻮ ﺍﺳﻢ ﺟﻤﻊ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺜﻼً: ﻃﻠﺒﺎ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ پرﻧﺪﻭﮞ ﮐﺎ غول ﺑﮭﯿﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﻠﮧ ﺑﮑﺮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﯾﻮﮌ ﮔﻮﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﻮﻧﺎ ﻣﮑﮭﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﻠﮍ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﮭرﻣﭧ ﯾﺎ ﺟﮭﻮﻣﮍ ﺍٓﺩﻣﯿﻮں ﮐﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﮍﺍ ﮨﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﺍﺭ ﮐﺒﻮﺗﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﮑﮍﯼ ﺑﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻨﮕﻞ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉ ﺍﻧﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﻨﺞ ﺑﺪﻣﻌﺎﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﻮﻟﯽ ﺳﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﮧ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﮐﺎ ﮔﭽﮭﺎ ﮐﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﮩﻞ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﺎ ﻟﭽﮭﺎ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﺘﮭﺎ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﭘﺮّﺍ ﺭﻭﭨﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮭﭙﯽ ﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﭩﮭﺎ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ کی ﮔﮉﯼ ﺧﻄﻮﮞ ﮐﺎ ﻃﻮﻣﺎﺭ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﮔُﭽﮭﺎ ﭘﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﮬﻮﻟﯽ اردو میں ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯽآواز ﮐﮯ لئے ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ ﻣﺜﻼ: ﺷﯿﺮ ﺩﮬﺎڑﺗﺎ ﮨﮯ ﮨﺎﺗﮭﯽ ﭼﻨﮕﮭﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﮨﻨﮩﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﮨﯿﭽﻮﮞ ﮨﯿﭽﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﻮﻧﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﯽ ﻣﯿﺎﺅﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﺭﺍﻧﺒﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﮉ ﮈﮐﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮑﺮﯼ ﻣﻤﯿﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﻞ ﮐﻮﮐﺘﯽ ﮨﮯ ﭼﮍﯾﺎ ﭼﻮﮞ ﭼﻮﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺍ ﮐﺎﺋﯿﮟ ﮐﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎﮨﮯ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﻏﭩﺮ ﻏﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮑﮭﯽ ﺑﮭﻨﺒﮭﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﺮﻏﯽ ککڑاتی ﮨﮯ ﺍﻟﻮ ﮨﻮﮐﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﻮﺭ ﭼﻨﮕﮭﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﻃﻮﻃﺎ رﭦ ﻟﮕﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﻏﺎ ﮐﮑﮍﻭﮞ کوں ﮐﮑﮍﻭﮞ ﮐﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ/بانگ دیتا ہے ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭼہچہاتے ﮨﯿﮟ ﺍﻭﻧﭧ ﺑﻐﺒﻐﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﭘﮭﻮﻧﮑﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﻠﮩﺮﯼ ﭼﭧ ﭼﭩﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﻨﮉﮎ ٹرّﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮭﯿﻨﮕﺮ ﺟﮭﻨﮕﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻨﺪر گھﮕﮭﯿﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺌﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﮯ لئے ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ ﻣﺜﻼ: ﺑﺎﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﺮﺝ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﮐﮍﮎ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﺳﻨﺴﻨﺎﮨﭧ ﺗﻮﭖ کی ﺩﻧﺎﺩﻥ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﮐﯽ ﮔﭧ ﮔﭧ ﮔﮭﻮﮌﮮ کی ﭨﺎﭖ ﺭﻭپیوں کی ﮐﮭﻨﮏ ﺭﯾﻞ ﮐﯽ گھﮍ ﮔﮭﮍ ﮔﻮﯾﻮﮞ کی ﺗﺎﺗﺎ ﺭﯼ ﺭﯼ ﻃﺒﻠﮯ کی ﺗﮭﺎﭖ ﻃﻨﺒﻮﺭﮮ ﮐﯽ ﺁﺱ گھڑی کی ٹک ٹک ﭼﮭﮑﮍﮮ ﮐﯽ ﭼﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﮑﯽ کی ﮔﮭُﻤﺮ ﺍﻥ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮐﮯ لئے ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺠﯿﮯ: ﻣﻮﺗﯽ ﮐﯽ آﺏ ﮐﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﺩﻣﮏ ﮨﯿﺮے ﮐﯽ ﮈﻟﮏ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﮐﯽ ﭼﻤﮏ ﮔﮭﻨﮕﮭﺮﻭ ﮐﯽ ﭼﮭُﻦ ﭼﮭُﻦ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﺎ ﺗﮍﺍﻗﺎ ﺑﻮ ﮐﯽ ﺑﮭﺒﮏ ﻋﻄﺮ ﮐﯽ ﻟﭙﭧ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﻣﮩﮏ ﻣﺴﮑﻦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺟﯿﺴﮯ: ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﺤﻞ ﺑﯿﮕﻤﻮﮞ کا ﺣﺮﻡ ﺭﺍﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ اﻧﻮﺍﺱ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮎ ﺭﺷﯽ ﮐﺎ ﺁﺷﺮﻡ ﺻﻮﻓﯽ ﮐﺎ ﺣﺠﺮﮦ ﻓﻘﯿﮧ ﮐﺎ ﺗﮑﯿﮧ ﯾﺎ ﮐﭩﯿﺎ ﺑﮭﻠﮯ ﻣﺎﻧﺲ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﻏﺮﯾﺐ کا ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﺍ ﺑﮭﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﮭﺘﺎ ﻟﻮﻣﮍﯼ کی ﺑﮭﭧ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﻧﺴلہ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﺎ ﺑﻞ ﺳﺎﻧﭗ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﺒﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﻭﻧﯽ ﻣﻮﯾﺸﯽ ﮐﺎ ﮐﮭﮍﮎ،۔۔۔۔ اردو لکھتے ہوئے درست الفاظ کا استعمال تحریر کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
- آج کا اردو ادب
آج کا اردو ادب بقلم خیام خالد یوں تو ہر فن میں وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اونچ نیچ ہے، لیکن اردو ادب کی بات اور اس کا مزا کچھ الگ سا ہے۔۔۔ فنوں کے فراز و نشیب کا دریا الٹا بہتا ہے! اب دیکھیے عام سی بات ہے، بچہ تو شروع میں بچہ ہی ہوتا ہے، گنگ زبان اور ناتواں سی پیاری بولی، بے جان پاؤں ہاتھ اور کمزور بدن، کم سن دماغ اور کوتاہ ذہن۔ وہ "کیں کیں" کے علاوہ کچھ جانتا ہی نہیں۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ سمجھ بوجھ آتی جاتی ہے، ذہن زیادہ کام کرنا شروع کرتا ہے، عقل کھلنے لگتی ہے، دماغ تیز ہونے لگتا ہے، رفتہ رفتہ دانت نکل آتے ہیں، لٹپٹاتی زباں اب چلنے دوڑنے لگتی ہے، بے جان جسم میں پھرتی آتی ہے، کمزور بدن میں چستی آتی ہے، ہلتے ڈلتے ہاتھ زور پکڑنے لگ جاتے ہیں، ڈگ مگ کرنے والے قدم اب جمنے لگتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے اس کی نشو نما ہوتی ہے۔ پھر ایک دور آتا ہے، جب وقت پھر واپس لوٹ کر واپس آتا، وہی کمزور نگاہیں، کم قوت، کوتاہ عقل، کمزور بدن، اب تو پاؤں بھی تین ہو گئے، اور ہاتھ کی تو گنتی نہ رہی۔۔۔ لیکن فنوں کی کہانی عجب ہے، اس کی سیما اور اس کا ریکھا "مربع گول" ہے! پہلے کبھی ہوتے تھے لوگ پرانے عقل والے، یہاں ہیں زبان والے تو وہاں ہیں قلم والے۔۔۔ انہوں نے فن کو اڑان بھرنے کے لیے پر دیا، پھر پھرپھراتی پنکھیوں میں جان ڈالی، پرواز کے دوران سر اور پیر کے جگہوں کی نشان دہی کی اور پھر اونچائیوں میں بہنا سکھایا۔ ظاہر ہے یہ وقت مشکل تھا، عجوبے چیلینجز (challenges) تھے، نمونے کی کٹھنائی تھی، مات دینے والی گھڑیاں، انوکھے اور نرالے میدان تھے۔ اس دور میں اینٹ کو پھول سے نہیں، بل کہ پتھر کو لوہے سے جواب دینے کا بول بالا تھا۔ بھلے ایسے وقت میں من میں الفاظ مشکل، ترکیبیں دشوار، رموز لا پتہ اور مضمون میں کھویا مٹھاس نہ ہوتا تو کیا ہوتا! لیکن اس دور کا سورج ڈھلتے ڈھلتے جب آج کے سایہ پر پہونچا، تو وقت نے حالات کو بدلا۔ اب بہار گلوں کی آئی چاہتی ہے، موسم پھولوں کا آچکا ہے، دور سہولت کا ہے لوگ آسانی تلاشتے ہیں، زمانہ مٹھاس کا ہے، سدا نزاکت اور نرمی کی پیاس ہے۔۔۔ الفاظ میں دلبری، تو ترکیب میں دل ربائی منظور ہے۔ آواز اور لہجہ میں لچک اور قلم و زبان میں خوب صورت جھکاؤ اور ٹھراؤ کی ضرورت ہے۔۔۔ سچ بتاؤں تو سچ بتاؤں تو اب سہولت اور آسانی ہی قلم کی روشنائی ہونی چاہیے۔ گر ادب کو کھول کھال کر دیکھا جائے، اس کے تاریخی پنوں کو الٹ پلٹ کیا جائے، اس کے چڑھتے گرتے، اوبتے ڈوبتے زمانہ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے نثر سے لے کر شعر تک، لفظ، اس کا جوڑ توڑ، میل جول، ترکیب اور استعمال سب میں مزے کی "آسانی والی جدت" پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملہ میں میر سے لے کر غالب و کلیم، پھر ان میں بے بہا (میرے نزدیک) نمایاں شورش کشمیری کہ انہوں نے اور ان جیسوں اردو ادب کے ڈور کو ایسی نزاکت سے سنبھالا کہ اس کی مہک آج بھی آتی جاتی ہے۔ جیسے کچھ شورش کا شعر: یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں کچھ یوں ہی کلیم بھی: مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتیں کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں یہ بیان حال یہ گفتگو ہے مرا نچوڑا ہوا لہو ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں کبھی پھر اقبال کی عجب کہانی دکھتی ہے جو خود میں حکمت ہوا کرتی ہے: میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو میں حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری دم زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری جب کہ اکبرآبادی کہتا ہے: سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں
Forum Posts (927)
- قیروان (تیونس) کی جامع 'مسجد عقبہ بن نافع' کی مختصر تاریخ ٰIn Share th😑ught ·January 25, 2023قیروان (تیونس) کی جامع 'مسجد عقبہ بن نافع' کو 50 ﮨﺠﺮﯼ ﺳﻦ 670ء ﻣﯿﮟ ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ۔ بعد ازاں اﺱ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﻮ عیسائی ﺑﺮﺑﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ پھر ﺣﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺍﻟﻐﺴﺎﻧﯽ ﻧﮯ 80ھ میں اسے ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩی ﮈﮬﺎﻧﭽﮧ ﻭﮨﯽ ﺭﮨﺎ۔ مسجد کے ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ 41 ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ اور 400 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺳﺘﻮﻥ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺒﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﺎ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻨﺒﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮑﮍﯼ ﮐﺎ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﺎ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﮯ، ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺗﯿﺮﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ !!!♦10117
- دل کو سکون دینے والی تلاوت ،In Share th😑ught ·January 23, 20238223
- مفهوم الوظيفة في اللغة العربيةIn Share th😑ught ·January 8, 2023ترتيب: الوظيفة في المفهوم اللغوي المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في المعاجم العربية المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في القواميس الغربية الوظيفة في المفهوم الاصطلاحي قبل الولوج إلى استعراض النظريات ذات المنطلق الوظيفي في مسار الدرس اللساني الحديث، و استعراض مشروع النظرية النحوية الوظيفية الذي تقوم عليه هذه الوحدة لابد من الوقوف عند مصطلح الوظيفة ومفهومه اللغوي و الاصطلاحي. -مفهوم الوظيفة: -الوظيفة في المفهوم اللّغوي: سنعمل في هذا العنصر على استعراض مفهوم الوظيفة لغة، من خلال مجموعة من المعاجم العربية و القواميس الغربية، وذلك ليتجلى لنا هذا المفهوم أو هذا المصطلح في الثقافتين العربية و الغربية على حد سواء. -المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في المعاجم العربية: جاء في لسان العرب لابن منظور تحت مادة (و.ظ.ف) ما يلي:" الوظيفة من كل شيء: ما يقدر له في كل يوم من رزق، أو طعام، أو علف أو شراب و جمعها الوظائف و الوُظْفُ، ووظف الشيء على نفسه ووظف توظيفا، ألزمها إياه، و قد وظفت له توظيفا على الصبي كل يوم حفظ آيات من كتاب الله عزّ وجل" ، لقد جاء المفهوم اللغوي لكلمة الوظيفة في هذه الفقرة المقتطفة من لسان العرب و مما جاء كله تحت هذه المادة (و.ظ.ف) في ذات المعجم بمعنى المهمة و الواجب المطلوب أو الدور وذلك في الحياة بصفة عامة كما وردت مشتقات الوظيفة للدلالة على أماكن معينة في أرجل الفرس و الجمل الأمامية و الخلفية و صيفاتها كفرس عريض الأوظفة أو المحدوبة ...الخ كما وردت كلمة الوظيفة في معجم الوسيط على النحو التالي: "وظف البعير، (يظفهُ) وظفا: أصاب وظيفة..، وظفهُ: عيّن له في كل يوم وظيفة. و عليه العمل و الخراج و نحو ذلك: قدره. يقال وظف له الرزق، ولدابته العلف. و وظف على الصبي كل يوم حفظ آيات من القرآن: عين له آيات لحفظها... (الوظيفة): ما يقدر من عمل أو طعام أو رزق و غير ذلك في زمن معين" لا يختلف معنى الوظيفة في هذا المعجم عن معناها في معجم لسان العرب فقد جاءت بمعنى المهمة و العمل و الالزام، الذي نجده في المعجمين عند الزام معلم القرآن للمتعلمين عند حفظ عدد معين من الآيات القرآنية كل يوم. -المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في القواميس الغربية: جاء في قاموسLe ROBERT quotidien ما يلي: « Fonction : n .f... 1 Exercice d’un emploi, d’une charge : par ext. Ce que doit accomplir une personne pour jouer son rôle dans la société. Dans un groupe social activité② devoir, mission, office, rôle, service, tache, travail… 2- Profession considérée comme contribuant à la vie de la société charge, emploi, métier… situation juridique de l’agent d’un service public. Etre dans la fonction publique fonctionnaire… » نلاحظ أن معنى كلمة "Fonction " المرادفة لكلمة " الوظيفة " في اللغة العربية جاءت بنفس المعنى في جميع القواميس الغربية، وهو المعنى أو الدلالة التي تقدمها هذه الفقرة المقتبسة في قاموس "ROBERT "، حيث جاءت بمعنى العمل، الدَّور والمهمة وهو المعنى نفسه الذي نجده في القواميس العربية الحديثة. -الوظيفة في المفهوم الاصطلاحي: لمصطلح الوظيفة أهمية كبيرة في الدرس اللساني الحديث. حيث أضحى متداولا بشكل واضح في كل فروع الدراسات اللغوية الحديثة، و يقصد به " أصحاب الاتجاه الوظيفي التداولي ارتباط بنية اللغة بوظيفة التواصل و التبليغ و التبيان و تقوم الوظيفة على أن لا اعتبار للوحدات اللسانية إلا من خلال الدور الذي تلعبه في التواصل" . لقد ربط الاتجاه الوظيفي التداولي مصطلح الوظيفة بالتبليغ و التواصل، إذ لا قيمة للوحدات اللغوية بمعزل عن الدور الذي تلعبه في العملية التواصلية. و قد اختصر أحمد المتوكل مفهوم الوظيفة في مفهومين أساسيين هما: الوظيفة كعلاقة و الوظيفة كدور. 1- الوظيفة كعلاقة: قدمها المتوكل على أنها "العلاقة القائمة بين مكونين أو مكونات في المركب الاسمي للجملة" بمعنى أن الوظيفة كعلاقة تهتم بوظائف الوحدات اللغوية داخل السياق الذي تأتي فيه أي علاقة كل عنصر لغوية داخل المركب (أو الجملة) بالعنصر الذي يليه أو العنصر الذي سبقه مثل العلاقة الاسنادية (مسند أو مسند إليه) 2- الوظيفة كَدَورْ: طرح فكرتها المتوكل بمعنى: " الغرض الذي تسخر الكائنات البشرية اللغات الطبيعية من أجل تحقيقه" لقد حصر المتوكل بهذا الوظيفة الدور في وظيفة اللغات الطبيعية المتمثلة في التواصل، و النحو الوظيفي ركز على الوظيفة كعلاقة لا لاهتمامها بالوحدات اللغوية داخل التركيب و بالعلاقات التي تربطها ببعضها البعض و هذا لا يعني أن النحو الوظيفي ألغى أو نفى الوظيفة الدور بل اعتبرها من بديهيات أو مسلمات الممارسة اللغوية فالهدف الأول من كل ممارسة لغوية هي التواصل.7318