top of page

کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو | غزل خیام خالد

 

کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو

ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو


زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے

ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو


خواب آغاز ایسے کچھ ہوا

اک میں تھا دل لگانے کو


سمجھ تھی، بوجھ تھا نہ عقل تھی

ایک دل تھا محبت میں ڈوب جانے کو


پھر دیکھا اسے تو دیکھا اسے ایسا

سرخ چہرہ، حسین پلکیں، قاتلانہ نگاہوں کو


ادائیں بھی اس کی خوب سی تھیں

ہم تو ہم تھے، مار ڈالا زمانےکو


پھر بخار مجھ کو بھی اس کا چڑھا

نہ جانوں خود کیا ہوا مجھ کو


وقت گزا گزرتے رہا وقت پر

اور چڑھنے لگا مجھ کو اس کا سحر


اب جاں ہی رہی نہ دل میرا رہا

میں چل پڑا خود کو بھلانے کو


کرم تھا رب کہ اس کو بھی قربت ہوئی

بیج چاہت کے میرے وہ بونے لگی


نزد دو دلوں کو جو سینے لگے

بہار خوشیوں کی مجھ کو بھی چھونے لگے


درمیاں اس ہماری کہانی چلی

فرحت کی اپنی جوانی چلی


پھر آنا تھا، آگیا انقلاب

چاہت کا اب ہو گیا سد باب


طرف اک ہوا ہم کے چلنے لگی

جس میں جاں اس کے جلنے لگی


گیا نزد، فرحت محبت خوشی

اک ہوا ایسی بھی چلنے لگی


دیپ پیار کے سب بجھے

دیے نفرتوں کے بھی جلنے لگے


وقت گزرے جو تھوڑے زمانے ہوے

درد اس کو بھی کچھ مچھ جلانے لگے


وہ آئی مگر پھر گئی

ایسے ہی ان٘تِم کہانی ہوئی

۔۔۔

اب پوچھتا کیا ہے، کا ہوا مجھ کو

گم سم وجود کھو چکا خود کو


کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو

ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو

خیام خالد

Comments


bottom of page