کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو | غزل خیام خالد
- Khaiyam Khalid
- Dec 20, 2022
- 1 min read
Updated: Dec 22, 2022
کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو
ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو
زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے
ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو
خواب آغاز ایسے کچھ ہوا
اک میں تھا دل لگانے کو
سمجھ تھی، بوجھ تھا نہ عقل تھی
ایک دل تھا محبت میں ڈوب جانے کو
پھر دیکھا اسے تو دیکھا اسے ایسا
سرخ چہرہ، حسین پلکیں، قاتلانہ نگاہوں کو
ادائیں بھی اس کی خوب سی تھیں
ہم تو ہم تھے، مار ڈالا زمانےکو
پھر بخار مجھ کو بھی اس کا چڑھا
نہ جانوں خود کیا ہوا مجھ کو
وقت گزا گزرتے رہا وقت پر
اور چڑھنے لگا مجھ کو اس کا سحر
اب جاں ہی رہی نہ دل میرا رہا
میں چل پڑا خود کو بھلانے کو
کرم تھا رب کہ اس کو بھی قربت ہوئی
بیج چاہت کے میرے وہ بونے لگی
نزد دو دلوں کو جو سینے لگے
بہار خوشیوں کی مجھ کو بھی چھونے لگے
درمیاں اس ہماری کہانی چلی
فرحت کی اپنی جوانی چلی
پھر آنا تھا، آگیا انقلاب
چاہت کا اب ہو گیا سد باب
طرف اک ہوا ہم کے چلنے لگی
جس میں جاں اس کے جلنے لگی
گیا نزد، فرحت محبت خوشی
اک ہوا ایسی بھی چلنے لگی
دیپ پیار کے سب بجھے
دیے نفرتوں کے بھی جلنے لگے
وقت گزرے جو تھوڑے زمانے ہوے
درد اس کو بھی کچھ مچھ جلانے لگے
وہ آئی مگر پھر گئی
ایسے ہی ان٘تِم کہانی ہوئی
۔۔۔
اب پوچھتا کیا ہے، کا ہوا مجھ کو
گم سم وجود کھو چکا خود کو
کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو
ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو
خیام خالد
Comments