top of page

آج کا اردو ادب بقلم خیام خالد

جدید اردو ادب
جدید اردو ادب
 

یوں تو ہر فن میں وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اونچ نیچ ہے، لیکن اردو ادب کی بات اور اس کا مزا کچھ الگ سا ہے۔۔۔


فنوں کے فراز و نشیب کا دریا الٹا بہتا ہے!


اب دیکھیے عام سی بات ہے، بچہ تو شروع میں بچہ ہی ہوتا ہے، گنگ زبان اور ناتواں سی پیاری بولی، بے جان پاؤں ہاتھ اور کمزور بدن، کم سن دماغ اور کوتاہ ذہن۔

وہ "کیں کیں" کے علاوہ کچھ جانتا ہی نہیں۔۔۔


پھر آہستہ آہستہ سمجھ بوجھ آتی جاتی ہے، ذہن زیادہ کام کرنا شروع کرتا ہے، عقل کھلنے لگتی ہے، دماغ تیز ہونے لگتا ہے، رفتہ رفتہ دانت نکل آتے ہیں، لٹپٹاتی زباں اب چلنے دوڑنے لگتی ہے، بے جان جسم میں پھرتی آتی ہے، کمزور بدن میں چستی آتی ہے، ہلتے ڈلتے ہاتھ زور پکڑنے لگ جاتے ہیں، ڈگ مگ کرنے والے قدم اب جمنے لگتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے اس کی نشو نما ہوتی ہے۔ پھر ایک دور آتا ہے، جب وقت پھر واپس لوٹ کر واپس آتا، وہی کمزور نگاہیں، کم قوت، کوتاہ عقل، کمزور بدن، اب تو پاؤں بھی تین ہو گئے، اور ہاتھ کی تو گنتی نہ رہی۔۔۔


لیکن فنوں کی کہانی عجب ہے، اس کی سیما اور اس کا ریکھا "مربع گول" ہے!


پہلے کبھی ہوتے تھے لوگ پرانے عقل والے، یہاں ہیں زبان والے تو وہاں ہیں قلم والے۔۔۔


انہوں نے فن کو اڑان بھرنے کے لیے پر دیا، پھر پھرپھراتی پنکھیوں میں جان ڈالی، پرواز کے دوران سر اور پیر کے جگہوں کی نشان دہی کی اور پھر اونچائیوں میں بہنا سکھایا۔


ظاہر ہے یہ وقت مشکل تھا، عجوبے چیلینجز (challenges) تھے، نمونے کی کٹھنائی تھی، مات دینے والی گھڑیاں، انوکھے اور نرالے میدان تھے۔


اس دور میں اینٹ کو پھول سے نہیں، بل کہ پتھر کو لوہے سے جواب دینے کا بول بالا تھا۔ بھلے ایسے وقت میں من میں الفاظ مشکل، ترکیبیں دشوار، رموز لا پتہ اور مضمون میں کھویا مٹھاس نہ ہوتا تو کیا ہوتا!


لیکن اس دور کا سورج ڈھلتے ڈھلتے جب آج کے سایہ پر پہونچا، تو وقت نے حالات کو بدلا۔


اب بہار گلوں کی آئی چاہتی ہے، موسم پھولوں کا آچکا ہے، دور سہولت کا ہے لوگ آسانی تلاشتے ہیں، زمانہ مٹھاس کا ہے، سدا نزاکت اور نرمی کی پیاس ہے۔۔۔


الفاظ میں دلبری، تو ترکیب میں دل ربائی منظور ہے۔ آواز اور لہجہ میں لچک اور قلم و زبان میں خوب صورت جھکاؤ اور ٹھراؤ کی ضرورت ہے۔۔۔


سچ بتاؤں تو

سچ بتاؤں تو اب سہولت اور آسانی ہی قلم کی روشنائی ہونی چاہیے۔


گر ادب کو کھول کھال کر دیکھا جائے، اس کے تاریخی پنوں کو الٹ پلٹ کیا جائے، اس کے چڑھتے گرتے، اوبتے ڈوبتے زمانہ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے نثر سے لے کر شعر تک، لفظ، اس کا جوڑ توڑ، میل جول، ترکیب اور استعمال سب میں مزے کی "آسانی والی جدت" پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔


اس معاملہ میں میر سے لے کر غالب و کلیم، پھر ان میں بے بہا (میرے نزدیک) نمایاں شورش کشمیری کہ انہوں نے اور ان جیسوں اردو ادب کے ڈور کو ایسی نزاکت سے سنبھالا کہ اس کی مہک آج بھی آتی جاتی ہے۔


جیسے کچھ شورش کا شعر:


یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں

رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں


مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب

مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں


تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں

ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں

کچھ یوں ہی کلیم بھی:


مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں

وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں


یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں

یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں


یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں

کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں


کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتیں

کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں


ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں

ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں


یہ بیان حال یہ گفتگو ہے مرا نچوڑا ہوا لہو

ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں


کبھی پھر اقبال کی عجب کہانی دکھتی ہے جو خود میں حکمت ہوا کرتی ہے:


میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو

میں حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری


دم زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی

غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری


جب کہ اکبرآبادی کہتا ہے:


سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں

اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں


دوست کی کہانی

خیام کی زبانی

روزیہ" اس کا پیارا سا نام تھا، پیار سے اسے روز (Rose ) بلایا کرتا تھا، بڑے انوکھے انداز سے ملاقات ہوئی، وہ بھی بڑی عجیب کہانی ہے، جیسے کوئی پارینہ قصہ۔


ان دنوں مجھے مضامین جمع کرنے کا چسکا لگا، مختلف لوگوں سے دنیا بھر میں رابطے کر رہا تھا، افریقہ، عرب، امریکہ، افغان، مصر، انڈونیشیا، فلسطین اور پھر اتفاق سے "ازبیکستان" (Uzbekistan)۔


اس کے پروفائل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا ایسا ہی کچھ لکھا ہوا تھا، میں نے اسے میسیج بھیجا اور مضمون کی ساری بات بتلادی، اس کو لکھنے کی عادت نہ تھی، اسی لیے اس سے مضمون تو نہ ملا لیکن کیا ملا، کیا کیا ملا، مت پوچھ!


(ضمنی بات: شامی: میرے اک قریبی بھائی "مولانا نور عین صاحب ندوی" نے مجھےایک لطیف بات سمجھائی کہ "انسان کی فکر میں وقت کا بڑا دخل ہے، بچپن میں کھیل کھلونے کی بات ہوتی ہے اور اور گزرتے وقت کے ساتھ گڈے اور گڑیوں کی؛ یہ فطرت انسانی ہے، اس کی ضروریات وقت کے ساتھ بدلتی جاتی ہیں...)


شاید میں بھی جسم میں بڑھ چکا تھا، خواہشات نے الگ موڑ لینی شروع کردی، جذبات کے رنگ بدلنے لگے، امنگوں کی چاپ اور ان ان چاپوں کے نقوش رنگنے سنورنے لگے، لگ لگاؤ کا طرز بدلنا چاہتا تھا، ذہن میں کیا اور تھا، دل میں کیا کچھ اور۔


جب دل مٹی کے کٹ پتلیوں میں لگ رہا تھا، تو اس کی انوکھی باتیں اور ان باتوں کا انداز، اس کا مزہ، اس کی آواز اور اس آواز کی مٹھاس، اس کی ادائیں اور ان اداؤوں کی خوب صورتی، ہائے رب...


دل کے جڑنے میں زبان کا بھی بڑا کردار ہوا کرتا ہے کہ ان ہی الفاظ سے احساس کروٹیں بدلتا ہے اور کیسی عجب بات ہے، نہ ہماری زبان ایک، نہ بول چال ایک، نہ انداز تکلم اور نہ ہی طرز تحریر ایک؛ پھر بھی ایک لگن سی ہونے لگی، جذبات کھلنے لگے، احساس ملنے لگے اور دل جڑنے لگا۔


محبت میں دوری ہائے کیا پوچھتے ہو؟

عشق دل میں اور معشوق دور، اس تکلیف کو بھی جھیلا ہم نے


اک لفظ کو سننے کی خاطر کبھی کتنے وقت نکل جاتے ہیں...


اور اس دوری نے ہمارے تڑپ اور عشق میں کیسی آگ لگ لگائی کہ بیان تک نہ کرپاؤں گا۔


ہماری باتیں بڑھنے لگیں، رت رت بھر جگنا شروع ہو گیا...


اس کی سہانی ادائیں، فریبی بولی، عجب نزاکتیں، دل کش نگاہیں، عجوبے پیارے پیارے سے نخرے، مدھم سی آواز، چاند سی ہنسی، دلوں کی کہانیاں، اور روحوں کے ترانے، ہائے رب!


ہر چیز اک وقت گزار کر کامل بنتی ہے یا بنتی ہوتی دکھتی ہے۔ ہماری کہانی بھی زمین سے ہو کر بادلوں کو سیر کو چلنے لگی، پر نکل آئے، اڑان بھرنے لگی، احساس ملنے لگے، خوش بو پھیلنے لگی، ہیمں اک چراغ ملا اور راستہ بن گیا، لفظوں کے تار جڑنے لگے اور دل کھلنے لگا...


باتوں باتوں میں راتیں کٹنے لگیں، بولیوں میں دن بِتنے لگے، کیا صبح کیا شام، کیا دن دوپہر، رات، کیا آفتاب کی تیزی اور چاند کی ٹھنڈک...


دن کٹے رات بیتے کیا ہمیں بتلاؤ ہو

عشق کی بولی ہم کو کیا سکھلاو ہو

تھاہ نہ ہو وقت کا جب دل سے دل مل جاؤ ہو

جان جائے، جائے، ذکر تو ہو جاؤ ہو

(خیام خالد)


جوں جوں وقت گزرنے لگا، سانسیں ایک دوسرے سے ملنے لگیں، باتیں ملنے لگیں، بے گانی، ان جانی راہیں ملنے لگیں، اور پھر ہونا کیا تھا بس...


میں ٹھہرا "دبُّو"، یا آج کل کے لفظوں میں سخت لونڈا۔

کبھی کسی احساس کا اظہار ان معاملات میں مجھ سے ہو نہ سکا اور شاید ہو بھی نہ سکے۔


تھوڑا موڑا یاد پڑتا ہے کہ عجب انداز سے دن کٹ رہے تھے، جسے قرآن کا پتہ تھا اور نہ ہی نماز کی آگہی تھی وہ بھی اب تہجد گزار، سورہ یس، اور واقعہ وغیرہ کا پابند ہوچکا تھا۔


اس کے وجود نے صرف اس کا پیار نہیں دلایا، بل کہ رب سے بھی رشتہ جوڑ دیا۔


بہت نیک و پارسا تھی وہ، نمازوں کی پابند، قرآن کی آواز، اللہ کی محبت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار تھی وہ (حال ہی میں اس نے خبر دیا اس فرقت میں اس نے قرآن حفظ کرلیا ہے)۔


ایک عجوبہ بات یہ بھی تھی کہ ہم ایک دوسرے کو قرآن سنایا کرتے تھے، کبھی دل نے چاہ لیا تو باتیں کال پر بھی ہو جایا کرتی تھیں...


میں تو دبو تھا ہی، کچھ آگے بھی بات اور بڑھے اور میرا دبو پن!


اس نے آخر میں اک سیاست کھیلا، عشاء بعد پڑھ لکھ کر کمرہ آنے کے بعد جب سونے کی تیاری ہونے لگی تو پھر عادت کی طرح اس کے میسیجیز آنے لگے، لیکن کچھ الگ ڈھنگ کا۔


روز: مجھے کچھ کہنا ہے۔

میں: ہممم، کیا بات ہے؟

روز: (جلیبی جیسی سیدھی سادی باتوں کے بعد) میرا کسی سے تعلق ہے۔


الجھی الجھی باتیں کچھ سمجھ نہ آرہی تھیں، پھر رفتہ رفتہ اس کا نٹ کھٹ پنہ دل سے لگنے لگا۔


کبھی تو میرا تذکرہ کرتی، تو کبھی لفظوں کو الٹ پھیر دیتی، کبھی انگریزی چھوڑ کر ازبیک زبان میں اظہار کرتی۔


اس مشکل ترین زبان کے جملوں سے مجھے جو یاد رہ سکا وہ "مین سینی" (men seni) تھا۔

یعنی مجھے تم سے عشق ہے۔


اب تلک اس سے جو کچھ کہا جا سکتا تھا اس نے کہہ ڈالا۔ تھی تو وہ ایک لڑکی ہی نا، شرمیلی، حیا والی، پردہ والی اور نہ جانے کیا کیا۔


میں سمجھ گیا کہ اب گاڑی کو دھکا مجھے ہی دینا ہوگا، چلانا تو ویسے مشکل تھا نا ہہہہہ۔


باتوں کی کڑیوں کو کاٹتے ہوئے، میں نے بھی کہہ ڈالا، بنا زیادہ سوچے سمجھے، جو ہوگا دیکھا جائے گا، دیکھ لیں گے گردہ اڑا دیں گے۔


پھر ہونا کیا تھا، اس کی چاہت ہی یہی تھی، جھٹ سے ہاتھ پکڑ لیا، اور بس اب کہانی ختم۔ نیکی کر دریا میں ڈال۔

|

اس کے الفت کے نغمے اب تلک کانوں میں گونجتے ہیں، اس کی چاہت کے ترانے ابھی بھی آواز دیتی ہیں، اس کے محبت کی کڑیاں اور عشق کی بیڑیاں اب تلک مجھے بندھن میں بندھ جانے کو کھوجتی ہیں۔

پر افسوس

دل لگتا ہے نہ دل لگی باقی رہی

ڈوب جانے کو محبت میں نہ اب بازی رہی

سو دفعہ بھی ہار کر میں جیت جانو خود کو ہوں

اب دکھا میں کیا نہ دوں کہ میں رہا نہ وہ رہی (خیام خالد)


ہر کہانی میں اہم کردار ہوا کرتا ہے، کچھ خوشیاں ہوتی ہیں، کچھ خوشی کے پلوں کی یادیں ہوتی ہیں، کبھی غم آتا ہے، بدلی بھی چھا جاتی ہے، رونا بھی ہوتا ہے، زندگی بیت تی جاتی ہے، وقت کٹتا جاتا ہے، پھر ایک پل ایسا بھی آتا ہے کہ تب وہ خوشیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی رونا ہنسنا، کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ساتھ، اب بس قصے ہیں، کہانیاں ہیں، یادیں ہیں۔


اب تو صرف غم ہوتا ہے، غم ہوتا ہے، غم ہوتا ہے۔


یہ زندگی کے کروٹ لینے کا وقت ہوتا ہے کہ جب قصہ ختم ہونے لگے، کہانی کی دیپ بجھنے لگے، قلم کی سیاہی مٹنے لگے، کتابوں کے پنے بھی جانے لگے۔ پوچھ مت اس وقت کو، اس الوداع کو کیا نام دوں!


ہماری بھی کہانی ہے، ہمارے بھی قصے ہیں، ہماری بھی کتاب ہے اور اس کتاب کے پنے ہیں، پھر کبھی نہ کبھی اسے بھی تو ختم ہونا ہی تھا...


غم میں شرکت کو میرے میں تیار تھ

بحر و دریا بھی بہنے کو صد بار تھا

(خیام خالد)


وقت گزرا اور کافی گزر گیا، میری بھی عمر ہوئی چاہتی ہے، لگتا ہے میرے والدین میرا نکاح کردیں گے۔ روزیہ نے کہا۔


وہ؛ پر پر... پھر پھر... یہ کیسے؟

میں سمجھ نہیں پایا، ہماری بھی تو اک جوڑی ہے، آخر تم تھوڑا انتظار کروا نہیں سکتی؟

پریشان میں بھی تھا اور مجبور وہ بھی۔


کیسے بتاؤں وہ پل، سچ پوچھ میرا ہاتھ تھر تھر کر رہا اور دل کاپنے لگا، آخرش ہمارا دل ٹوٹا، ہماری آنکھیں بہیں، جان بھی نکلی اور مجھے کہہ لینے دو کہ میں نے روح کو، اپنے آپ کو کھو دیا۔


کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو

ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو


زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے

ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو


خواب آغاز ایسے کچھ ہوا

اک میں تھا دل لگانے کو


سمجھ تھی، بوجھ تھا نہ عقل تھی

ایک دل تھا محبت میں ڈوب جانے کو


پھر جو دیکھا اسے تو دیکھا اسے ایسا

سرخ چہرہ، حسین پلکیں، قاتلانہ نگاہوں کو


ادائیں بھی اس کی خوب سی تھیں

ہم تو ہم تھے، مار ڈالا زمانے کو

پھر بخار مجھ کو بھی اس کا چڑھا

نہ جانوں خود کیا ہوا مجھ کو


وقت گزا گزرتے رہا وقت پر

اور چڑھنے لگا مجھ کو اس کا سحر


اب جاں ہی رہی نہ دل میرا رہا

میں چل پڑا خود کو بھلانے کو


کرم تھا رب کہ اس کو بھی قربت ہوئی

بیج چاہت کے میرے وہ بونے لگی


نزد دو دلوں کو جو سینے لگے

بہار خوشیوں کی مجھ کو بھی چھونے لگے


درمیاں اس ہماری کہانی چلی

فرحت کی اپنی جوانی چلی


پھر آنا تھا، آگیا انقلاب

چاہت کا اب ہو گیا سد باب


طرف اک ہوا ہم کے چلنے لگی

جس میں جاں اس کے جلنے لگی


گیا نزد، فرحت محبت خوشی

اک ہوا ایسی بھی چلنے لگی


دیپ پیار کے سب بجھے

دیے نفرتوں کے بھی جلنے لگے


وقت گزرے جو تھوڑے زمانے ہوے

درد اس کو بھی کچھ مچھ جلانے لگے


وہ آئی مگر پھر گئی

ایسے ہی ان٘تِم کہانی ہوئی


اب پوچھتا کیا ہے، کا ہوا مجھ کو

گم سم وجود کھو چکا خود کو


کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو

ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو


زلزلے آئے امنڈ کر دل میں جب اس نے

ہمیں چن لیا تھا زخم کھانے کو



یہ عشق بھی بڑی عجیب چیز ہے، رلاتی بھی ہے، تڑپاتی بھی، راتوں کے نیندوں کو کھا جاتی بھی ہے؛ اس میں درد ہے، آہ ہے، حسرت و یاس ہے، بے چینی اور کلبلاہٹ ہے، تڑپ اور تکلیف ہے، سوز اور افسوس ہے۔


غم کی زمین ہے، تو آنکھوں کی نمی کا دریہ بھی، بے جا تکالیف کا راستہ ہے یہ، تو بے انتہا درد کا سامان بھی، اس کے بعد بھی دل میں سما جانے والا، روح میں گھل جانے والا، اور روح میں رچ بس جانے والا محبوب ہے یہ عشق۔


بہت بے کیف ڈھنگ ہے اس کا، کافی خوفناک ہے، کتنے کیسے برے نتیجے ہیں اس کے، وہ تو اک ڈراؤنا خواب ہے، اس کا وجود سرخ نہیں کالا ہے، اس کی ہیئت سیاہ ہے، اس کی بولی بھاری بھرکم ہے، اس کی چال بیہودہ بے ڈھنگی ہے، اس کا وقت تاریک ہے، بل کہ وہی اک عجوبہ ہے؛ پھر بھی دل میں کھلنے والا احساس ہے، زباں پہ چڑھ جانے والا ذکر ہے وہ، گلے میں اترنے والی دوائی ہے، بیمار دل کا علاج ہے، روح کی وہ مٹھاس ہے، زندگی کی جان ہے، حیات کی پیاس ہے اور وہی اس پیاس کی سیرابی ہے۔


اس‌سے جتنا بھی بھاگیں اتنا ہی قریب آتا ہے یہ، دور بھگائیں تو دل میں گھس جاتا ہے، منہ پھیرنے پہ سانسوں میں بس جاتا ہے، کٹھورتا دکھائیں تو "سب رس" بن جاتا ہے یہ، اک انوکھا چمبک ہے، جدائی کی تدبیروں میں ملنے کی آرزو دلاتا ہے، نفرت کے جال میں چاہتوں کو بنتا ہے، غصہ کے آگ میں بھی الفت کی بوندیں برساتا ہے، لغزشوں میں کھلی آنکھوں پر پٹی بن جاتا ہے، چمکتے سورج کو ٹمٹماتے تارے اور بجھا سا چاند کو روشن کہلوادیتا ہے، دن کو بھی رات بنا دیتا ہے۔


بھر ان سب سے سوا حیرت ہے کہ کوئی اس سے بچ نہ سکا، میں آپ سب دیوانگی سے گزرے ہیں، اس محبت نے ہر کسی کا رستہ کاٹ رکھا ہے، سب کے وجود کا سایہ ہے، جیون کا ساتھی، سفر کا ہم راہ اور زندگی کی ریت ہے۔


ہر کسی نے نسیم محبت کے جھونکے کھائے ہیں، ہر کوئی عشق میں تڑپا ہی تڑپا ہے، چاہت میں جلا بھنا ہے، محبت میں لڑا ہے، سوزش عشق میں، والہ و شیدائی میں غم و درد کو جھیلا ہی ہے، دیوانگی عشق میں آنکھیں نم کی ہی گئیں ہیں...


کوئی ہے جو کہہ دے کہ میں نے محبت کا مزہ نہیں چکّھا، مجھے عشق کی ہوا نہ لگی، چاہت کی گلیوں سے نہیں گزرا، الفت کے بیج نہ بوئے، مودت کی بولی بولا اور نہ سنا، دیوانگی کے ڈرامے نہ دیکھے، جنون اور پاگل پن کی دنیا نہ دیکھی؟


چاہے گوشت پوشت کے انسان سے ہو، کسی دوسری مخلوق سے، کسی فن سے ہو، خود سے ہو یا اصل معشوق سے؛ ہر کسی نے محبت کی ہے، عشق کیا ہے۔


دوسری کی کیا سناؤں میں نے خود کتنے کہاں دور عشق دیکھے ہیں، کسیے کسیے لیلی اور مجنوں کو دیکھا، کسیے محبت کے پنچھی دیکھے، چاہت کی لوری دیکھی، عشق کے افسانے سنے، وہ روداد، دیوانگی کے ترانے، دل لگی کی کہانیاں، تال میل کے قصے، جگرے دیوانے تو دبُّو اصحاب مے خانے دیکھے، اس کی تڑپ بھی دیکھی اور اس میں جلتے دیوانوں کو بھی، سلگتے شعلے دیکھے اور جھلستے جسموں کو بھی، بازی ہارے چہروں پہ قہقہے دیکھے تو جیتی آنکھوں میں آنسو بھی، شیروں کا بھیگا پن دیکھا، تو ڈگمگاتے قدم، کپکپاتے ہونٹ، لرزتے زبان کی جرئتیں بھی دیکھی، اور کیا بتاؤں محبت کی بھوک بھی دیکھی اور اس عشق کا پیاس بھی۔


.......


بڑے عجوبے قصے سنے سنائے، لیکن اک دوست کا قصہ کچھ زیادہ قریب سے دیکھا اور کافی کچھ سیکھا، اس کی داستان اسی کی زباں بن کر سنائے دیتا ہوں:


اکیلے کی زندگی ہی اچھی ہوتی ہے، تنہائی ہی بہتر ہے، لوگ کتنے بھی قریب کیوں نہ ہوجائیں، ہماری چلنے والی سانس بن جائیں، دھڑکنے والا دل بن جائیں، تب بھی لوگ لوگ ہی رہتے ہیں۔


کہاں سے اپنا سفر عشق بتاؤں، ہمت نہیں ہوتی کہ ال لفظ بھی لکھوں، وہ یادیں تڑپاتی ہیں، دل کو جلاتی ہیں، بے بس بے چین کرتی ہیں، بے سہارا، اپاہج بنا دیتی ہیں۔ کبھی تڑپ کر رہ جاتا ہوں، کبھی بے ساختہ آنکھیں بہہ پڑتی ہیں، کبھی دل ٹوٹتا جاتا ہے، تو کبھی جان نکلتی رہتی ہے۔


میرے گیت نہ سنو ہو تم

آنسو میرے نہ گنو ہو تم

ٹوٹتے ستارے پہ ہے نظر

ٹوٹے دل سے ہو گم سم (خیام خالد)

کبھی ان کو اپنی گیت میں ڈھالوں ہوں

تو کبھی رسالے لکھ ڈالوں ہوں

بہت بے کیف ہے زندگی مری

میں ہی جانو، کیسے خود کو سنبھالوں ہوں

(خیام خالد)


اسی تڑپ میں کیا کچھ نہ کیا، لیکن درد کم کیا ہو؟

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا

سوزش بڑھتی ہی رہی، دل ٹوٹتا ہی رہا، روح بھی نکلتی ہی رہی، اب تو میرا "میں" بھی ساتھ نہیں دیتا!


کیوں چلے آتے ہو چھوڑ جانے کو

ہمیں کچھ نہیں ہے غم بھلانے کو

(خیام خالد)


لوگ کہتے ہیں میں سمجھ سکتا ہوں، غم نہ کریں"۔ بالکل جھوٹے ہیں وہ لوگ، کون سمجھے گا دل کی کیفیت، روح کی تڑپ، بے ساختہ آنسو، بے چین حالت، مرجھایا چہرہ، وہ احساس، جذبات، تکلیف، درد، پریشانی، جان جاںکنی، کون سمجھے گا اپنے آپ کو کھونے کا کڑوا پن۔


کبھی کسی (غیر فیملی) کی یاد میں رویا نہیں، کسی کی جدائی میں تڑپا نہیں، وہ پہلی اور شاید آخری تھی جس کے لیے میرا پتھر دل موم ہوچکا تھا، آنکھیں بہہ پڑی تھیں، بے حواس ہو گیا تھا، دیوانگی چھا گئی تھی، جنون منڈرا رہا تھا، جگنا آسان تھا اور نہ ہی سونا، اک زندہ لاش بنا دیا تھا:


ترے عشق نے کیا بنا دیا ہمیں

کہاں تھا میں، کہاں لا دیا ہمیں (خیام خالد)


روزیہ" اس کا پیارا سا نام تھا، پیار سے اسے روز (Rose ) بلایا کرتا تھا، بڑے انوکھے انداز سے ملاقات ہوئی، وہ بھی بڑی عجیب کہانی ہے، جیسے کوئی پارینہ قصہ۔۔۔۔


Drop Me a Line, Let Me Know What You Think

Thanks for submitting!

© SOMNOOR

bottom of page