آج کا اردو ادب بقلم خیام خالد
یوں تو ہر فن میں وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اونچ نیچ ہے، لیکن اردو ادب کی بات اور اس کا مزا کچھ الگ سا ہے۔۔۔
فنوں کے فراز و نشیب کا دریا الٹا بہتا ہے!
اب دیکھیے عام سی بات ہے، بچہ تو شروع میں بچہ ہی ہوتا ہے، گنگ زبان اور ناتواں سی پیاری بولی، بے جان پاؤں ہاتھ اور کمزور بدن، کم سن دماغ اور کوتاہ ذہن۔
وہ "کیں کیں" کے علاوہ کچھ جانتا ہی نہیں۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ سمجھ بوجھ آتی جاتی ہے، ذہن زیادہ کام کرنا شروع کرتا ہے، عقل کھلنے لگتی ہے، دماغ تیز ہونے لگتا ہے، رفتہ رفتہ دانت نکل آتے ہیں، لٹپٹاتی زباں اب چلنے دوڑنے لگتی ہے، بے جان جسم میں پھرتی آتی ہے، کمزور بدن میں چستی آتی ہے، ہلتے ڈلتے ہاتھ زور پکڑنے لگ جاتے ہیں، ڈگ مگ کرنے والے قدم اب جمنے لگتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے اس کی نشو نما ہوتی ہے۔ پھر ایک دور آتا ہے، جب وقت پھر واپس لوٹ کر واپس آتا، وہی کمزور نگاہیں، کم قوت، کوتاہ عقل، کمزور بدن، اب تو پاؤں بھی تین ہو گئے، اور ہاتھ کی تو گنتی نہ رہی۔۔۔
لیکن فنوں کی کہانی عجب ہے، اس کی سیما اور اس کا ریکھا "مربع گول" ہے!
پہلے کبھی ہوتے تھے لوگ پرانے عقل والے، یہاں ہیں زبان والے تو وہاں ہیں قلم والے۔۔۔
انہوں نے فن کو اڑان بھرنے کے لیے پر دیا، پھر پھرپھراتی پنکھیوں میں جان ڈالی، پرواز کے دوران سر اور پیر کے جگہوں کی نشان دہی کی اور پھر اونچائیوں میں بہنا سکھایا۔
ظاہر ہے یہ وقت مشکل تھا، عجوبے چیلینجز (challenges) تھے، نمونے کی کٹھنائی تھی، مات دینے والی گھڑیاں، انوکھے اور نرالے میدان تھے۔
اس دور میں اینٹ کو پھول سے نہیں، بل کہ پتھر کو لوہے سے جواب دینے کا بول بالا تھا۔ بھلے ایسے وقت میں من میں الفاظ مشکل، ترکیبیں دشوار، رموز لا پتہ اور مضمون میں کھویا مٹھاس نہ ہوتا تو کیا ہوتا!
لیکن اس دور کا سورج ڈھلتے ڈھلتے جب آج کے سایہ پر پہونچا، تو وقت نے حالات کو بدلا۔
اب بہار گلوں کی آئی چاہتی ہے، موسم پھولوں کا آچکا ہے، دور سہولت کا ہے لوگ آسانی تلاشتے ہیں، زمانہ مٹھاس کا ہے، سدا نزاکت اور نرمی کی پیاس ہے۔۔۔
الفاظ میں دلبری، تو ترکیب میں دل ربائی منظور ہے۔ آواز اور لہجہ میں لچک اور قلم و زبان میں خوب صورت جھکاؤ اور ٹھراؤ کی ضرورت ہے۔۔۔
سچ بتاؤں تو
سچ بتاؤں تو اب سہولت اور آسانی ہی قلم کی روشنائی ہونی چاہیے۔
گر ادب کو کھول کھال کر دیکھا جائے، اس کے تاریخی پنوں کو الٹ پلٹ کیا جائے، اس کے چڑھتے گرتے، اوبتے ڈوبتے زمانہ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے نثر سے لے کر شعر تک، لفظ، اس کا جوڑ توڑ، میل جول، ترکیب اور استعمال سب میں مزے کی "آسانی والی جدت" پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس معاملہ میں میر سے لے کر غالب و کلیم، پھر ان میں بے بہا (میرے نزدیک) نمایاں شورش کشمیری کہ انہوں نے اور ان جیسوں اردو ادب کے ڈور کو ایسی نزاکت سے سنبھالا کہ اس کی مہک آج بھی آتی جاتی ہے۔
جیسے کچھ شورش کا شعر:
یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں
رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں
مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب
مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں
تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں
ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں
کچھ یوں ہی کلیم بھی:
مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں
یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں
یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں
کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں
کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتیں
کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں
ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں
ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں
یہ بیان حال یہ گفتگو ہے مرا نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں
کبھی پھر اقبال کی عجب کہانی دکھتی ہے جو خود میں حکمت ہوا کرتی ہے:
میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو
میں حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری
دم زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی
غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
جب کہ اکبرآبادی کہتا ہے:
سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں
اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں