سوال : حضرت خیریت سے ہیں، ایک مسئلہ تھا وہ یہ کہ ہمارا علاقہ تلنگانہ میں ضلع نلگنڈہ کا تعلقہ مریال گوڑہ میں علماء کرام نے جو قدیم دائمی نظام الاوقات دکن حیدرآباد میں اختتام وقت سحر اور ابتداء وقت نماز فجر میں جو بیس یا بائیس منٹ کا وقفہ ہے رمضان المبارک میں چونکہ عوام الناس میں اکثریت کا معمول اذان فجر تک کھانے کا ہے جبکہ سحر کا ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسےمیں پچھلے دو سال سے خاص کر روزہ کی حفاظت کی غرض سے ابتداء وقت اذان فجر مروجہ میں سے دس مِنٹ گھٹاکر اذان دلوانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔( یعنی جو وقفہ سحر کے آخری وقت سے فجر کے شروع وقت کے درمیان میں ہے) ۔ سوال طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ ہمارا عمل از روۓ شرع صحیح صحیح یا غلط ؟جبکہ مقصود روزہ کی حفاظت ،یہ اذان سے ہی ممکن ہے۔ جبکہ بعضے سفراء حضرات عوام الناس میں یوں بات پھیلائی کہ یہ فقہ حنفی کے خلاف ہے، اس میں حنفی شافعی دیوبندی و بریلوی کی کوئی تفریق ہے ۔ مدلل مفصل جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع مرحمت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1063-240T/M=09/1443
انتہاء وقت سحر سے احتیاطاً پانچ منٹ قبل سحری كھانا بند كردینا چاہئے اور ختم سحر كے دس منٹ (احتیاطاً) بعد اذان فجر دینی چاہئے، عوام میں اذان فجر تك سحر كھانے كا جو رواج ہے اس كو ختم كرنے كی ضرورت ہے ا س كا طریقہ یہ نہیں ہے كہ اذان فجر، صبح صادق سے پہلے ہی دیدی جائے، وقت سے پہلے اذان دینا معتبر نہیں پس آپ كے یہاں پچھلے دو سال سے روزے كی حفاظت كو پیش نظر ركھتے ہوئے جو طریقہ اپنایا گیا ہے اس كے مطابق اگر اذان فجر، سحر كا وقت ختم ہونے اور صبح صادق شروع ہونے سے پہلے دی جارہی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ جب پوری طرح اطمینان ہوجائے كہ سحر كا وقت ختم ہوگیا ہے اور فجر كا وقت شروع ہوگیا ہے تب اذان دینی چاہئے اس لیے احتیاط پر مبنی طریقہ یہ ہےكہ سحر كا وقت ختم ہونے كے دس منٹ بعد اذان فجر دی جائے اور لوگوں كو ختم سحر كے وقت كی اطلاع مسجد سے بذریعہ مائیك اعلان كركے یا سائرن وغیرہ بجاكر كردی جائے نیز لوگوں كو خود بھی اوقات سحر و افطار كی جنتری یا كیلنڈر سے دیكھ كر احتیاطاً پانچ منٹ پہلے سحر كھانا بند كردینا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ناقل۔ مولانا راشد قاسمی نیپالی