اشک بکھرے پڑے ہیں، چن لو!
یہ کون سا نور ہے، جو چھایا ہی جاتا ہے، کونسی طاقت ہے جو بڑھتی چلی جاتی ہے، کیسا بادل ہے، منڈرایا ہی جاتا ہے؟
لوگ تو لوگ، ان کے زبر زیر بھی بدل رہے ہیں؛ چرند و پرند بھی اسی لِپٹ میں لپٹے جاتے ہیں!
پھر عجب ہوا چل پڑی، زمیں، سماں، رنگ روپ، چال ڈھال، دن رات، گل بوٹے اور ان کی مہک، بولیاں اور ان کے لفظوں کی بو، تحریر و لکھاوٹ اور ان سے ہر سو جھل مل جھل مل ٹمٹماتی روشنی، سب انجانے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ اسلام اور مغرب ہے، بس فرق کل اور آج کاہے ۔ مسلمان گزر گئے اور مغرب اپنا پرچم لہراتا ہوا سارے جہاں میں اپنا سایہ کیے ہوے ہے۔
آج نعرہ ہے تو مغرب کا، آواز مغرب سے اور زندگی ہے تو بس مغرب۔
اب سنتوں میں مزہ کہاں، آداب میں لذت، دین میں کشش، اسلام میں ذوق اور طرز نبوی میں عیش و سواد کہاں!
رفت و گفت کی مٹھاس مغرب میں، چال چلن کی چاشنی مغرب میں، تہذیب میں حلاوت مغرب میں، اخلاق میں شیرینی مغرب میں۔
سننے کو کان، دیکھنے کو آنکھیں، بولنے کی زبان، لکھنے کا قلم، سوچنے اور سمجھنے کا دماغ و ذہن، ہمارا سب کچھ، سب کچھ مغرب سے۔
کیا آپ ان کی زبان کے لفظوں کے بھار میں دب نہیں جاتے، ان کی تحقیقات کے اونچائیوں سے آپ کی آنکھیں نہیں الٹتیں، ان کی جدت کاریوں سے مرعوب نہیں ہوتے؟
سچ بتلائیں؛ اک طرف اردو بولنے والا، تو دوسری جانب وہ زبان والا، کس کی عزت، بل کہ ہیبت دل میں آتی ہے؟
ایک سائڈ پر جنت کا سا لباس پہنے پنہّے والا ہے اور اُدھر کو ان کا سوٹ بوٹ، کس کی طرف آنکھیں اٹھتی ہیں اور نظر میں نرمی تو کہاں گرمی آتی ہے؟
کس کی کڑوی بات بھی مکھن لگتی ہے، تو کس کی رعنائی میں کانٹے جبھتے ہیں؟
نہ جانے کیسی کایہ پلٹ ہے! صحیح وہ ہے جو وہ بولے کرے، دیکھے سیکھے اور بتلائے۔
گر وہ گھنٹی کو گلہ میں لگا لیں، تو وہ بھی فیشن، ناچ گانے کو گلے لگا لیں، تو وہ بھی فیشن، کپڑے آدمی خود نہ پہن کر کتوں کو پہنائیں تو وہ بھی فیشن، انسانیت کو بھلا بیٹھیں تو وہ بھی۔۔۔
کتنی کھلم کھلا سراپا بے نقاب گمرہی پر توجہ دلا کر سوچنے کو کہوں، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسا داؤ کھیلا جس نے ہم سے ہمارا "میں" چھین لیا۔
انہوں نے ہم سے ہماری عقل چھین لی، اب یہ عقل ہماری نہیں رہی، دماغ ہمارا نہیں رہا، فکر و خیال ہمارے نہیں رہے؛ اب ہماری عقل ان کے ہاتھوں ہے، وہ جیسے چاہیں، جس طرح چاہیں، جس جہت میں چاہیں اس کو موڑ دیں اور ہمیں احساس تک نہ، بل کہ لگے کہ یہی سچ یہی حق اور حقیقت ہے۔
اس کی بد ترین مثالوں میں ایک وہ ہے، جس میں عام عام تو، نام نہاد خاص بھی جکڑے ہیں یعنی بڑھاپے میں شادی اور مرگ میں اولاد۔
حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہم فرماتے ہیں؛ وقت ایسا آیا جب بچے گیارہ بارہ کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں اور ازدواجی زندگی ایک مدت گزارے!
گر صحیح نگاہوں سے اسے دیکھیں تو اپنے آپ پر تھو کہنے کو دل چاہے کہ کیسے اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے جری بن کر، لوگوں سے ڈر کر اور اپنے اللہ سے زبان حال یہ کہہ کر کہ ہم تیری نہ مانتے، ہم نے مغرب کی چادریں اوڑھ لیں۔
انہوں نے ازدواج کو مشکل بنایا، کچھ بے جا قوانین لاگو کر کے، پھر اس میں تنگی ڈالتے ڈالتے گئے، انہیں کیا؟ ایک ضرورت تھی جسے ایسے مکمل کریں یا ویسے۔ پھر انہوں نے بے حیائی کے رشتہ کو ایک خوب صورت رشتہ کا نقاب پہنایا اور اسی کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔
اب غور کریں! وہ ازدواج سے دور ہیں، مگر ان کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں، لیکن وہ اندھے جنہوں نے دین کو اپنایا، جب وہ اس روش پر چلے، تو ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔
یاتو انہوں نے بے جا تکلفات کو برداشت کیا، اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ اللہ کر "كلمة حق، أريد بها الباطل" کا سہارا لیتے رہے۔
کچھ وہ ہوے جنہوں نے اپنے ہی رب سے منہ پھیر لیا، اپنے ہی نبی کی محبت کو روند ڈالا اور بے حیائی کی اور بڑھے۔
یہ کوئی اِکِّی دُکِّی بات نہیں، بل کہ ہماری زندگی میں شاید کوئی معاملہ ایسا رہ گیا ہو، جس میں وہ اپنے ہاتھ ڈالنے سے کامیاب رہ گئے ہوں، یا یہ کہ ہم نے خود وہاں تھوڑی عقلمندی سے کام لیا ہو۔۔۔
کیا یہ سچ نہیں؟
0%یقینا
0%نہیں
@suraiyaqumar4 must need to understand the bandwagon effect bias