جس درخت پر پھل ہوتاہے پتھر بھی اسی پر پھینکے جاتے ہیں، پیغمبر اسلام ﷺ کی بے داغ زندگی اور آپ علیہ السلام کی روشن تعلیمات نے انسانیت کوکچھ اسطرح متاثر کیا کہ بہت کم عرصہ میں اسلام مکہ سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچ گیا،اسلام کی اس مقبولیت کی وجہ سے بڑی تعداد میں دینِ حق کے حاسدین بھی پیدا ہوئے، اور انہوں نے محسنِ انسانیت،غمخوارِ امت، پیغمبرﷺ ذات گرامی اور شانِ عالی پر انگلی اٹھانے کی بیجا کوشش کی ،
خاص کر صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد مغربی دُنیا نے اسکو اپنی مہم بنالیا۔اورانہوں نے سب سے زیادہ اس بات کو پھیلانے کا پروپیگنڈہ کیا کہ آپ ﷺنےتلوارکےذریعہاسلام کی نشر و اشاعت کی اور طاقت کا استعمال کرکے لوگوں کو مسلمان بنایا۔ العیاذباللہ
قرآن مقدس اس باب میں واضح طور پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرمایا
لاإكراهَ في الدّين قدتَبَّينَ الرّشدِمِنَ الغيّ
ہدایت گمراہی کے مقابلے میں واضح ہوچکی ہے لہٰذا دین کے معاملے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں،،
باطل نظریات،اور فاسدخیالات،رکھنےوالےمغربی تہذیب کے پیشواؤں، اور پیروکاروں،کو معلوم ہونا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ کو ہدایت فرمائی گئی کہ
اگر غیرمسلم اگر آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکارکردیں تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں،آپ پر تومحض یہ ہے کہ آپ پیغامِ ہدایت کو صاف صاف پہنچا دیں،
فإن تَوَلَوّا فإنّماعليك البلاغُ المبِيْنْ
جب اسلام دین کے معاملے میں جبر و اکراہ کا قائل نہیں،بلکہ اسلامی تہذیب نے دینی معاملات میں اکراہ سے منع فرمایا تو آپ ﷺ کیوں کر اپنی طاقت اور تلوارکا استعمال کرکےکسی کومسلمان بناتے،، فياللعجب
آپ ﷺکی حیات طیبہ میں متعدد ایسےمواقع پیش آئے کہ آپ علیہ السلام کسی کو مسلمان بنانے پر مجبور کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔
ہجرت کے دوسرے سال ہی غزوۂ بدر کا واقعہ پیش آیا جس میں مکہ کے بڑے بڑے بہادر شریکِ جنگ تھے۔اللہ ربّ العزت نے مسلمانوں کو فتحِ مبین عطافرمایئ،اس جنگ میں ستر سرداران مکہ اور اعداء اسلام مارے گئے،اورستراشخاص قید کرلئے گئے اگر اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہوتا توان سترکوایمان لانے پرمجبور کرتے مگر آپ ﷺنے جبر و اکراہ سے قطع نظر حسن سلوک کا برتاؤ کیا۔اوراسیرانِ جنگ کو صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے سپرد کر کے ارشاد فرمایا کہ انھیں آرام و راحت کے ساتھ رکھا جائے۔
اسیران جنگ میں ''سہیل بن عمرو،،بھی تھے جو نہایت فصیح اللسان اور دریاکی روانی موجوں کی طغیانی انکی زبانوں پر بچھایا گیا تھا وہ عام مجمعوں کے اندر آپ ﷺ کےخلاف تقریریں کرتا جب وہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ لگا تو امیرالمومنین خلیفہ المسلمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے فرمایا یا رسول االلہ ﷺ اسکے نیچے کے دو دانت اکھڑوا دیجئے تاکہ اسکی وہ فصاحت و بلاغت جسکے ذریعہ آپ پر زبان درازی کرتا ہے اسکا سدباب ہوجائے مگر آپ ﷺنے اس سے منع فرمایا۔اگرآپ ﷺ چاہتے تو سہیل بن عمرو کو ڈرا دھمکا کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے مگر نہیں،،،
بیشر ایسے مقامات آئے کہ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا مسلمان اسی مؤقف میں تھے کہ انھیں ایمان لانے پر مجبور کیا جائے مگر آپ ﷺ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔بلکہ کفار و مشرکین اسلام کی سربلندی آپ ﷺ کی عفو درگذر اورمعبودان باطل کے ناطاقطی کو دیکھ کر از خود جوق در جوق حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے اور آپ پر بیعت کی
ان تفصیلات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن مواقع پر غیر مسلم افراد کو ایمان لانے پر مجبور کیا جاسکتا تھا ان مواقع پر بھی آپ ﷺ جبر و اکراہ سے گریز کیا
لہذا باطل و فاسد مکتبہ فکر کے لوگوں کا یہ کہنا کہ اسلام تلوار کی زور سے پھیلا بے سر و پا ہے'
محمد عمر فاروق ابن محمد سلیم صاحب غفرلہ
متعلم دارالعلوم دیوبند
ماشاءاللہ ،،