top of page
نتائج البحث
النوع
الفئة
تم العثور على 927 عنصر لـ ""
- قیروان (تیونس) کی جامع 'مسجد عقبہ بن نافع' کی مختصر تاریخ ٰفي الفئة Share th😑ught ·January 25, 2023قیروان (تیونس) کی جامع 'مسجد عقبہ بن نافع' کو 50 ﮨﺠﺮﯼ ﺳﻦ 670ء ﻣﯿﮟ ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ۔ بعد ازاں اﺱ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﻮ عیسائی ﺑﺮﺑﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ پھر ﺣﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺍﻟﻐﺴﺎﻧﯽ ﻧﮯ 80ھ میں اسے ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩی ﮈﮬﺎﻧﭽﮧ ﻭﮨﯽ ﺭﮨﺎ۔ مسجد کے ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ 41 ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ اور 400 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺳﺘﻮﻥ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺒﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﺎ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻨﺒﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮑﮍﯼ ﮐﺎ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﺎ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﮯ، ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺗﯿﺮﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ !!!♦10117
- دل کو سکون دینے والی تلاوت ،في الفئة Share th😑ught ·January 23, 20238223
- مفهوم الوظيفة في اللغة العربيةفي الفئة Share th😑ught ·January 8, 2023ترتيب: الوظيفة في المفهوم اللغوي المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في المعاجم العربية المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في القواميس الغربية الوظيفة في المفهوم الاصطلاحي قبل الولوج إلى استعراض النظريات ذات المنطلق الوظيفي في مسار الدرس اللساني الحديث، و استعراض مشروع النظرية النحوية الوظيفية الذي تقوم عليه هذه الوحدة لابد من الوقوف عند مصطلح الوظيفة ومفهومه اللغوي و الاصطلاحي. -مفهوم الوظيفة: -الوظيفة في المفهوم اللّغوي: سنعمل في هذا العنصر على استعراض مفهوم الوظيفة لغة، من خلال مجموعة من المعاجم العربية و القواميس الغربية، وذلك ليتجلى لنا هذا المفهوم أو هذا المصطلح في الثقافتين العربية و الغربية على حد سواء. -المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في المعاجم العربية: جاء في لسان العرب لابن منظور تحت مادة (و.ظ.ف) ما يلي:" الوظيفة من كل شيء: ما يقدر له في كل يوم من رزق، أو طعام، أو علف أو شراب و جمعها الوظائف و الوُظْفُ، ووظف الشيء على نفسه ووظف توظيفا، ألزمها إياه، و قد وظفت له توظيفا على الصبي كل يوم حفظ آيات من كتاب الله عزّ وجل" ، لقد جاء المفهوم اللغوي لكلمة الوظيفة في هذه الفقرة المقتطفة من لسان العرب و مما جاء كله تحت هذه المادة (و.ظ.ف) في ذات المعجم بمعنى المهمة و الواجب المطلوب أو الدور وذلك في الحياة بصفة عامة كما وردت مشتقات الوظيفة للدلالة على أماكن معينة في أرجل الفرس و الجمل الأمامية و الخلفية و صيفاتها كفرس عريض الأوظفة أو المحدوبة ...الخ كما وردت كلمة الوظيفة في معجم الوسيط على النحو التالي: "وظف البعير، (يظفهُ) وظفا: أصاب وظيفة..، وظفهُ: عيّن له في كل يوم وظيفة. و عليه العمل و الخراج و نحو ذلك: قدره. يقال وظف له الرزق، ولدابته العلف. و وظف على الصبي كل يوم حفظ آيات من القرآن: عين له آيات لحفظها... (الوظيفة): ما يقدر من عمل أو طعام أو رزق و غير ذلك في زمن معين" لا يختلف معنى الوظيفة في هذا المعجم عن معناها في معجم لسان العرب فقد جاءت بمعنى المهمة و العمل و الالزام، الذي نجده في المعجمين عند الزام معلم القرآن للمتعلمين عند حفظ عدد معين من الآيات القرآنية كل يوم. -المفهوم اللغوي لمصطلح الوظيفة في القواميس الغربية: جاء في قاموسLe ROBERT quotidien ما يلي: « Fonction : n .f... 1 Exercice d’un emploi, d’une charge : par ext. Ce que doit accomplir une personne pour jouer son rôle dans la société. Dans un groupe social activité② devoir, mission, office, rôle, service, tache, travail… 2- Profession considérée comme contribuant à la vie de la société charge, emploi, métier… situation juridique de l’agent d’un service public. Etre dans la fonction publique fonctionnaire… » نلاحظ أن معنى كلمة "Fonction " المرادفة لكلمة " الوظيفة " في اللغة العربية جاءت بنفس المعنى في جميع القواميس الغربية، وهو المعنى أو الدلالة التي تقدمها هذه الفقرة المقتبسة في قاموس "ROBERT "، حيث جاءت بمعنى العمل، الدَّور والمهمة وهو المعنى نفسه الذي نجده في القواميس العربية الحديثة. -الوظيفة في المفهوم الاصطلاحي: لمصطلح الوظيفة أهمية كبيرة في الدرس اللساني الحديث. حيث أضحى متداولا بشكل واضح في كل فروع الدراسات اللغوية الحديثة، و يقصد به " أصحاب الاتجاه الوظيفي التداولي ارتباط بنية اللغة بوظيفة التواصل و التبليغ و التبيان و تقوم الوظيفة على أن لا اعتبار للوحدات اللسانية إلا من خلال الدور الذي تلعبه في التواصل" . لقد ربط الاتجاه الوظيفي التداولي مصطلح الوظيفة بالتبليغ و التواصل، إذ لا قيمة للوحدات اللغوية بمعزل عن الدور الذي تلعبه في العملية التواصلية. و قد اختصر أحمد المتوكل مفهوم الوظيفة في مفهومين أساسيين هما: الوظيفة كعلاقة و الوظيفة كدور. 1- الوظيفة كعلاقة: قدمها المتوكل على أنها "العلاقة القائمة بين مكونين أو مكونات في المركب الاسمي للجملة" بمعنى أن الوظيفة كعلاقة تهتم بوظائف الوحدات اللغوية داخل السياق الذي تأتي فيه أي علاقة كل عنصر لغوية داخل المركب (أو الجملة) بالعنصر الذي يليه أو العنصر الذي سبقه مثل العلاقة الاسنادية (مسند أو مسند إليه) 2- الوظيفة كَدَورْ: طرح فكرتها المتوكل بمعنى: " الغرض الذي تسخر الكائنات البشرية اللغات الطبيعية من أجل تحقيقه" لقد حصر المتوكل بهذا الوظيفة الدور في وظيفة اللغات الطبيعية المتمثلة في التواصل، و النحو الوظيفي ركز على الوظيفة كعلاقة لا لاهتمامها بالوحدات اللغوية داخل التركيب و بالعلاقات التي تربطها ببعضها البعض و هذا لا يعني أن النحو الوظيفي ألغى أو نفى الوظيفة الدور بل اعتبرها من بديهيات أو مسلمات الممارسة اللغوية فالهدف الأول من كل ممارسة لغوية هي التواصل.7318
- النشید العربیفي الفئة Share th😑ught ·January 21, 20237124
- *رفقاء عزیز!* *بہت محنت و مشقت سے چند احباب کے ساتھ مِلکر علماء بہار کو یکجا کیے ہیں* *مسلسل دو دن کفي الفئة Share th😑ught ·January 31, 2023https://youtu.be/vTdAaqG_p2s6327
- کذاب زمانی ۔۔۔گوہر شاہیفي الفئة Share th😑ught ·January 21, 2023قارئین کرام! امت مسلمہ میں فتنوں کا رونما ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ،فتنوں کا رونما ہونا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی شروع ہو گیا تھا نیز نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی حیات مبارکہ میں ہی امت کو فتنوں کے سلسلے میں آگاہ بھی کر چکے ہیں ۔ بالخصوص قرب قیامت کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح تسلسل کے ساتھ فتنے رونما ہوں گے ، آپ کی پیشن گوئی کے مطابق اس وقت نت نئے فتنے رونما ہو رہے ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر فتنے دعوائے مہدویت و مسیحیت اور نبوت کے راستہ سے اٹھ رہے ہیں ۔ انہیں میں سے ایک فتنہ ” فتنۂ گوہر شاہی “ ہے جو اس وقت ملک نیپال ، پاکستان اور ہندوستان میں بالکل برق رفتاری کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ تفتیش و تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی قادیانیت و شکیلیت کی طرح باطل نظریات ، غلط خیالات اور گمراہ کن عقائد پر مشتمل ایک فتنہ ہے ۔ اس کا بانی ” ریاض احمد گوہر شاہی “ ہے جو ۲۵/ نومبر ٫۱۹۴۱ کو ملک پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ” ڈھوک گوہر شاہی “ نامی گاؤں میں فضل حسین کے گھر پیدا ہوا ، یہ اپنے آپ کو سید کہتا ہے ؛ مگر اصلا یہ مغل ہے __ گویا کہ نسباً مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی ہے ؛ کیوں کہ وہ بھی مغل ہی ہے اس لیے میدان عمل بھی اسی جیسا اختیار کیا اور وہ اپنی کتاب روحانی سفر کے صفحہ ۸ پر خود لکھتا ہے کہ سوسائٹیوں کی وجہ سے ( مجھ پر) مرزائیت کا اثر ہوگیا __ یہ سب سے پہلے مہدویت کا دعویٰ کیا پھر مسیحیت کا ، اس کے بعد نبوت کا بالآخر خدائی کا بھی دعویٰ کیا ۔ اس وقت بر صغیر کے اکابر علماء دیوبند ، دار الافتاء اور تمام مکاتب فکر والوں نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو خارج از اسلام قرار دیا ۔ یہ ملعون و مغضوب علیہ اپنی ولادت ہی کی تاریخ یعنی ۲۵/ نومبر کو ٫۲۰۰۱ میں نیمونیا کی بیماری میں مبتلا ہوا اور دنیا کو اپنے ناپاک وجود سے پاک کرکے جہنم رسید ہوگیا ۔ اس کے بعد اس فتنہ کا پیشوا اور راہنما اس ملعون کا بیٹا یونس گوہر شاہی بنا ، جو فی الحال لندن میں مقیم ہے اور وہیں سے اس فتنے کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے ، اسلام اور مسلمان دشمنوں کی طاقت سے ہر آئے دن شوشل میڈیا کے ذرائع ابلاغ کی مدد سے امت کو گمراہ کررہا ہے ،وہ باضابطہ You too پر Alra TV کے نام سے ایک چینل چلا رہا ہے جس پر وہ ہندوستانی وقت کے حساب سے تقریباً ۱۲/ بجے سے دیر شب تک Live speech دیتا ہے ۔ جائزہ لینے کے لیے ایک روز راقم الحروف بھی اس کے پروگرام میں شریک ہوا تو یہ دیکھا کہ مسلم نوجوان مرد وعورت کثیر تعداد میں اس کے اس حربے کے ذریعے گوہر شاہی کے شکنجے میں آرہے ہیں اور اس کے گمراہ کن عقائد سے متاثر ہورہے ہیں ان کے متاثر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مسلم نوجوان مرد و زن گوہر شاہی کے نام کو اپنے نام کا جزو بنا رہے ہیں مثلاً شبنم گوہر ، ثناء گوہر ، عارف گوہر وغیرہ ۔ راقم اس کے بعد ایک مرتبہ اور یونس گوہر شاہی کا پروگرام سنا جس میں ملعون کے بہت سے باطل عقائد سامنے آئے ان میں سب سے زیادہ برا عقیدہ یہ ہے کہ یہ بد باطن کہہ رہا تھا کہ حضور گوہر شاہی ( ریاض احمد گوہر شاہی) کے دنیا میں آجانے کے بعد الوہیت کا پرچار کرنا ناجائز ہے ، گویا کہ یہ گوہر شاہی کو اللہ مان رہا ہے ۔ لہذٰا یہ بھی اپنے فاسد خیالات اور باطل عقائد کی وجہ سے خارج از اسلام ہے اور اس کے ماننے والے بھی۔ اس لیے ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم پوری امت مسلمہ کو اس کے باطل عقائد سے آگاہ کریں اور اس کے دام فریب میں آنے سے روکیں__ تاکہ وہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں __ ؛کیوں کہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ کام کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے اور پوری امت کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا ربّ العالمین محمد نظام الدین روتہٹ نیپال دورۂ حدیث شریف دارالعلوم دیوبند بروز ہفتہ ۲۸/ جمادی الاخری ۱۴۴۴ ھ6220
- مغرب کے آنگن میں | بقلم خیام خالدفي الفئة Share th😑ught ·January 22, 2023اشک بکھرے پڑے ہیں، چن لو! یہ کون سا نور ہے، جو چھایا ہی جاتا ہے، کونسی طاقت ہے جو بڑھتی چلی جاتی ہے، کیسا بادل ہے، منڈرایا ہی جاتا ہے؟ لوگ تو لوگ، ان کے زبر زیر بھی بدل رہے ہیں؛ چرند و پرند بھی اسی لِپٹ میں لپٹے جاتے ہیں! پھر عجب ہوا چل پڑی، زمیں، سماں، رنگ روپ، چال ڈھال، دن رات، گل بوٹے اور ان کی مہک، بولیاں اور ان کے لفظوں کی بو، تحریر و لکھاوٹ اور ان سے ہر سو جھل مل جھل مل ٹمٹماتی روشنی، سب انجانے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اسلام اور مغرب ہے، بس فرق کل اور آج کاہے ۔ مسلمان گزر گئے اور مغرب اپنا پرچم لہراتا ہوا سارے جہاں میں اپنا سایہ کیے ہوے ہے۔ آج نعرہ ہے تو مغرب کا، آواز مغرب سے اور زندگی ہے تو بس مغرب۔ اب سنتوں میں مزہ کہاں، آداب میں لذت، دین میں کشش، اسلام میں ذوق اور طرز نبوی میں عیش و سواد کہاں! رفت و گفت کی مٹھاس مغرب میں، چال چلن کی چاشنی مغرب میں، تہذیب میں حلاوت مغرب میں، اخلاق میں شیرینی مغرب میں۔ سننے کو کان، دیکھنے کو آنکھیں، بولنے کی زبان، لکھنے کا قلم، سوچنے اور سمجھنے کا دماغ و ذہن، ہمارا سب کچھ، سب کچھ مغرب سے۔ کیا آپ ان کی زبان کے لفظوں کے بھار میں دب نہیں جاتے، ان کی تحقیقات کے اونچائیوں سے آپ کی آنکھیں نہیں الٹتیں، ان کی جدت کاریوں سے مرعوب نہیں ہوتے؟ سچ بتلائیں؛ اک طرف اردو بولنے والا، تو دوسری جانب وہ زبان والا، کس کی عزت، بل کہ ہیبت دل میں آتی ہے؟ ایک سائڈ پر جنت کا سا لباس پہنے پنہّے والا ہے اور اُدھر کو ان کا سوٹ بوٹ، کس کی طرف آنکھیں اٹھتی ہیں اور نظر میں نرمی تو کہاں گرمی آتی ہے؟ کس کی کڑوی بات بھی مکھن لگتی ہے، تو کس کی رعنائی میں کانٹے جبھتے ہیں؟ نہ جانے کیسی کایہ پلٹ ہے! صحیح وہ ہے جو وہ بولے کرے، دیکھے سیکھے اور بتلائے۔ گر وہ گھنٹی کو گلہ میں لگا لیں، تو وہ بھی فیشن، ناچ گانے کو گلے لگا لیں، تو وہ بھی فیشن، کپڑے آدمی خود نہ پہن کر کتوں کو پہنائیں تو وہ بھی فیشن، انسانیت کو بھلا بیٹھیں تو وہ بھی۔۔۔ کتنی کھلم کھلا سراپا بے نقاب گمرہی پر توجہ دلا کر سوچنے کو کہوں، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسا داؤ کھیلا جس نے ہم سے ہمارا "میں" چھین لیا۔ انہوں نے ہم سے ہماری عقل چھین لی، اب یہ عقل ہماری نہیں رہی، دماغ ہمارا نہیں رہا، فکر و خیال ہمارے نہیں رہے؛ اب ہماری عقل ان کے ہاتھوں ہے، وہ جیسے چاہیں، جس طرح چاہیں، جس جہت میں چاہیں اس کو موڑ دیں اور ہمیں احساس تک نہ، بل کہ لگے کہ یہی سچ یہی حق اور حقیقت ہے۔ اس کی بد ترین مثالوں میں ایک وہ ہے، جس میں عام عام تو، نام نہاد خاص بھی جکڑے ہیں یعنی بڑھاپے میں شادی اور مرگ میں اولاد۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہم فرماتے ہیں؛ وقت ایسا آیا جب بچے گیارہ بارہ کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں اور ازدواجی زندگی ایک مدت گزارے! گر صحیح نگاہوں سے اسے دیکھیں تو اپنے آپ پر تھو کہنے کو دل چاہے کہ کیسے اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے جری بن کر، لوگوں سے ڈر کر اور اپنے اللہ سے زبان حال یہ کہہ کر کہ ہم تیری نہ مانتے، ہم نے مغرب کی چادریں اوڑھ لیں۔ انہوں نے ازدواج کو مشکل بنایا، کچھ بے جا قوانین لاگو کر کے، پھر اس میں تنگی ڈالتے ڈالتے گئے، انہیں کیا؟ ایک ضرورت تھی جسے ایسے مکمل کریں یا ویسے۔ پھر انہوں نے بے حیائی کے رشتہ کو ایک خوب صورت رشتہ کا نقاب پہنایا اور اسی کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔ اب غور کریں! وہ ازدواج سے دور ہیں، مگر ان کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں، لیکن وہ اندھے جنہوں نے دین کو اپنایا، جب وہ اس روش پر چلے، تو ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ یاتو انہوں نے بے جا تکلفات کو برداشت کیا، اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ اللہ کر "كلمة حق، أريد بها الباطل" کا سہارا لیتے رہے۔ کچھ وہ ہوے جنہوں نے اپنے ہی رب سے منہ پھیر لیا، اپنے ہی نبی کی محبت کو روند ڈالا اور بے حیائی کی اور بڑھے۔ یہ کوئی اِکِّی دُکِّی بات نہیں، بل کہ ہماری زندگی میں شاید کوئی معاملہ ایسا رہ گیا ہو، جس میں وہ اپنے ہاتھ ڈالنے سے کامیاب رہ گئے ہوں، یا یہ کہ ہم نے خود وہاں تھوڑی عقلمندی سے کام لیا ہو۔۔۔5423
- يا للعجب!في الفئة Share th😑ught ·January 22, 2023619
- شاباش میسی ،في الفئة Share th😑ught ·February 11, 20236116
- Everything has a Limit and People are crossing that Limit in the name of Tolerance and Stupid Rightsفي الفئة Share th😑ught ·January 20, 20235218
- "چاچا آپ ہمیں نکال سکتے ہیں۔ ہم سے ہلا بھی نہیں جا رہا۔" 17 گھنٹے بعد ان شامی بچیوں کو نکال دیاگیافي الفئة Share th😑ught ·February 7, 20235210
- نشیدفي الفئة Share th😑ught ·January 20, 20235217
bottom of page